پیش لفظ
عارف باللہ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ تعالیٰ نے ابتدائی عمر سے ہی اللہ والوں سے خاص تعلق عطا فرمایا تھا۔ حضرت والابالغ ہونے سے قبل ہی اپنے وقت کے نہایت قوی صاحبِ نسبت بزرگ حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب پرتاب گڑھی رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت سے فیض حاصل کرنے لگے تھے۔کچھ ہی عرصہ بعد حکیم الامت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے اجل خلیفہ حضرت مولانا شاہ عبد الغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضرہوئے، ان کے دستِ مبارک پر بیعت کی اور ان کے انتقال تک تقریباً سترہ برس نہایت جانفشانی سے خدمت کی۔حضرت والا نے آخر میں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے ایک اور خلیفہ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے تعلق قائم کیا جو ان کے انتقال تک رہا۔
یہی وجہ تھی کہ حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات کا اکثر و بیشتر حصہ صحبت اہل اللہ کی اہمیت و فضیلت پرمشتمل تھا۔ ایک عالم ہونے کے باوجود حضرت والا نے محض کتابی علم پر اکتفاء نہیں فرمایا بلکہ اس علم کا نور حاصل کرنے کے لیے اکابر اہل اللہ سے جڑے رہے۔ حضرت والا علماء کرام کو یہی نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ اپنے علم پر بھروسہ نہ کریں بلکہ اس علم پر عمل کرنے کا پیٹرول حاصل کرنے کے لیے کسی باعمل متبع سنت اللہ والے سے تعلق قائم کریں۔
علماء کرام کے لیے ذکر کی اہمیت عوام کی بنسبت مزید بڑھ جاتی ہے، اس وعظ میں ذکر کی اہمیت کو، ذکر کی فضیلت اور ذکر کرنے کے طریقوں کو حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ نے اس طرح مفصل انداز میں بیان فرمایا ہے کہ عمل کرنے والے کے لیے چوں و چرا کی گنجائش نہیں چھوڑی۔
اللہ تعالیٰ اس وعظ کے ذریعہ حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کی اس فکر کو عوام اور علماء میں منتقل فرمائیں، سب کو ذکر کا اہتمام کرنے کی توفیق عطا فرما کر اللہ والا بنائیں اور حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کے لیے صدقۂ جاریہ بنائیں، آمین۔
یکےاز خدام
عارف باللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ
و
حضرت مولانا شاہ حکیم محمد مظہر صاحب دامت برکاتہم