کے معمولات میں وِرد و وظیفہ اور اللہ اللہ نہیں ہوں گے اس پر علوم وارد نہیں ہوں گے، اس کے دل میں علوم کی آمد نہیں ہوگی، اس پر صوفیاء کا اجماع ہے اور یہ حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات میں موجود ہے ۔ لہٰذا ہر وقت صرف خدمتِ خلق میں نہ لگے رہو، کچھ وقت خلوت کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ ضرور رکھو، ورنہ دل سے برکت ختم ہوجائے گی۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جس کنویں سےمسلسل پانی نکالا جاتا ہے تو اس میں کیچڑ آنے لگتی ہے لہٰذا کنویں کو وقفہ ملنا چاہیے تاکہ پھر سے پانی جمع ہوجائے۔ اسی طرح دین کے خادموں اور تبلیغ والوں کو بھی چاہیے کہ کچھ وقت خلوت میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ بیٹھیں جہاں کوئی بھی نہ ہو، بس بندہ ہو اور اللہ ہو، مالک ہو اور غلام ہو، پہلے مالک سے لو پھر مخلوق میں تقسیم کرو۔
حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب فرماتے ہیں کہ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ اپنا مٹکا نل کے نیچے رکھو، جب مٹکا بھرجائے اور چھلکنے لگے تو چھلکتا ہوا مال مخلوق کو دو، یہ نہیں کہ سب دے دیا اور خود خالی ہوگئے۔ لہٰذا خوب اللہ اللہ کرو، خوب ذکر کرو، خوب اللہ والوں کے پاس بیٹھو پھر جب دل نور سے بھرکر چھلکنے لگے تو امت کو چھلکتا ہوا مال دو۔ جن مولویوں نے اللہ اللہ نہیں کیا اور بزرگوں کی صحبت نہیں اُٹھائی تو ان کے دل کا مٹکا خالی نظر آتا ہے۔ لہٰذا اپنا مٹکا بھرنے کے بعد چھلکتا ہوا مال لوگوں کو دو پھر دیکھو پینے والوں کو بھی مزہ آئے گا اور یہ خود بھی مست ہوگا، اگر خود بامزہ نہیں ہوگا تو دوسروں کو کیسے بامزہ کرے گا؟ جب خود ہی دیوانہ نہیں ہوگا تو دوسروں کو کیسے دیوانہ بنائے گا؟ جو شخص خود دیوانہ نہیں ہے اور دوسروں کو دیوانہ بنانے کی کوشش کررہا ہے تو یہ سمجھ جاؤ کہ یہ شخص چالباز ہے، یہ لوگوں پر تنہائی میں ہنستا ہے کہ دوسروں کو اچھا بے وقوف بنایا۔تو اصلی دیوانہ وہ ہے جو پہلے خود دیوانہ بنے، دیوانہ بنانے کا حق اس کو حاصل ہے جو پہلے خود اللہ کا دیوانہ بنے لہٰذا منبر پر بیٹھنے سے پہلے خود دیوانے بنو ؎
بن کے دیوانہ کریں گے خلق کو دیوانہ ہم
بر سرِ منبر سنائیں گے تیرا ا فسانہ ہم
میں اپنے بیٹے مولانا مظہر صاحب سے بھی کہتا ہوں کیوں کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے میری غیرموجودگی میں ان سے دین کا کام لے رہا ہے کہ اللہ کے ساتھ خلوت میں ذکر کا معمول ضرور رکھیں۔ جس کی خدا سے خلوت جتنی عمدہ ہوگی، اتنی ہی جلوت میں اللہ تعالیٰ اس کے انوار کو