چھینکیں گے، کھانسیں گے، وہ شادی بیاہ کا موقع ہے، ہم ہنسی مذاق کریں گے، آپ کی عزت کی وجہ سے ہمیں خاموش اور سنجیدہ رہنا پڑے گا۔ اس نے کہا کہ ہم کو دور کسی درخت کے نیچے حقہ دے دینا، ہم حقہ پیتے رہیں گے اور ہمارا کھانا بھی وہیں بھیج دینا، ہم تمہارے ساتھ کھانابھی نہیں کھائیں گے تاکہ تم آزادی سے ہنسی مذاق کرو۔ ان لوگوں نے کہا کہ چلو بڑے میاں جب ہماری اتنی رعایت کررہے ہیں تو انہیں بھی ساتھ لے لو۔ اور طے یہ ہوا کہ ان کا کھانا دور درخت کے نیچے بھیج دیا جائے گا، وہ ہمارے ساتھ کھانا بھی نہیں کھائیں گے تاکہ ہم آزادی سے ہنسی مذاق کریں۔ جب دسترخوان بچھا تو میزبان جو لڑکی والا تھا اس نے لڑکے والوں کو ذلیل کرنے کا منصوبہ بنایا، پہلے زمانہ میں یہ مذاق چلتا تھا۔ تو اس نے لڑکے والوں کے دونوں ہاتھ سیدھے کرکے ڈنڈے سے خوب کس کے باندھ دیے تاکہ نہ دوسرے ہاتھ سے رسی کھول سکیں نہ دانتوں سے،پھردسترخوان بچھا کر بریانی لگادی۔ اب سب کے ہاتھ تو ڈنڈے سے سیدھے بندھے ہوئے تھے، وہ انہیں موڑ نہیں سکتے تھے کہ ہاتھوں کو موڑ کر منہ تک لے جائیں لہٰذا اب کھانا کیسے کھائیں؟ تو ان میں سے ایک نے کہا کہ بڑے میاں نے کہا تھا جب جوانوں کو کوئی گاڑھا وقت پیش آئے تو بوڑھے مشورہ دیا کرتے ہیں، ان کی عقل سے کچھ کام بن جاتا ہے کیوں کہ ان کے پاس تجربہ ہوتا ہے۔ تو ان میں سے ایک بھاگا اور کہا کہ بڑے میاں! آپ نے کہا تھا کہ بوڑھوں کو حقیر مت سمجھو، ان کا بہت تجربہ ہوتا ہے۔ اب تجربہ دکھاؤ اور ہمیں بتاؤ کہ ہم کھانا کیسے کھائیں؟ وہاں لڑکی والے خوب مذاق اُڑارہے ہیں، تالیاں بجارہے ہیں کہ آہا! اچھے پھنسے، دیکھو ہم نے ان کو کیسا ذلیل کیا۔ تو بڑے میاں نے کہا کہ تم بیس آدمی ہو لہٰذا ایسا کرو کہ دس آدمی دس آدمیوں کے سامنے بیٹھ جائیں، اس طرح سب کے منہ ان کے ہاتھوں کے سامنے ہوں گے اور سامنے والا اپنے سامنے والے کے منہ میں لقمہ ڈالتا رہے۔ بس وہ بغلیں بجاتاہوا گیا اور انہوں نے ایک دوسرےکو اسی طرح کھانا کھلادیا۔ اس پر میزبان نے کہا کہ یہ کوئی اور معاملہ ہے، بتاؤ! تمہارے ساتھ کوئی بوڑھا تو نہیں ہے؟ جب اسے پتا چلا کہ ان کے ساتھ ایک بوڑھا ہے تو اس نے کہا کہ بس اس بوڑھے کی وجہ سے آج تمہاری عزت بچ گئی۔
تو میرے شیخ شاہ عبدالغنی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ بڑے بوڑھوں کو حقیر مت سمجھو، ان سے تجربہ حاصل کرو۔ تو بارگاہِ نبوت سے امت کو تین راستے عطا ہوئے۔ سَائِلُوا الْعُلَمَآءَ