سکون قلب کی بے مثال نعمت |
ہم نوٹ : |
|
کہ زندگی میں کبھی ایسا نہ چلّایا ہوگا۔ بڑھئی نے جو آواز سنی تو ناشتہ چھوڑ کر بھاگا کہ کیا ماجرا ہوگیا۔ جب اس نے دیکھا کہ بندر اس مصیبت میں مبتلا ہے تو فوراً لکڑی کا ٹکڑا اُٹھایا اور لکڑی کے دونوں حصوں کو چیر کر ان کے بیچ میں رکھ دیا، جب دونوں حصوں میں فاصلہ ہوگیا تو بندر نکل کر بھاگا اور اس طرح بھاگا کہ پھر مڑ کر اُس طرف دیکھتا بھی نہیں تھا۔ گناہوں سے لذّت حاصل کرنے والے کی مثال بالکل یہی مثال گناہوں کی لذت کی ہے، جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور گناہ میں ہمیں چین ملے گا بس اُس کا حال بھی یہی ہے کہ گناہ کرتے وقت تھوڑا سامزہ ملتا ہے، جیسے خارش کی بیماری میں مزہ آتا ہے۔ حکیم الامت مجدد الملّت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بے وقوف لوگ خارش کی بیماری میں کھجانے کا مزہ لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب کھجاتا ہوں تو مزہ آجاتا ہے لیکن کھجانے کے بعد جب خون نکلتا ہے اور کھجاتے کھجاتے کھال پھٹ جاتی ہے تو اتنی جلن ہوتی ہے کہ شروع میں جو یہ کہتا تھا کہ آہا ایسا مزہ آرہا ہے جیسے میری شادی ہورہی ہے اور ولیمے کی دیگ چڑھ رہی ہے، بریانی پک رہی ہے، شامیانے لگ رہے ہیں لیکن جب خارش کرلینے کے بعد کھال پھٹ جاتی ہے اور خون نکلنے لگتا ہے اور جلن بڑھ جاتی ہے پھر کہتا ہے کہ افوہ! بیوی بھی بھاگ گئی اور شامیانے بھی اُجڑ گئے ؎ حسن رخصت ہوا گلے مل کے شامیانے اُجڑ گئے دل کے یہ اس فقیر کا شعر ہے۔ میری شاعری کو سن کر بڑے بڑے شاعر تعجب کرتے ہیں کہ یہ مُلَّا ہوکر ایسے شعر کہتا ہے، بس اللہ تعالیٰ کا شکر ہے حالاں کہ میرا کوئی استاد نہیں ہے، میرا درد میری شاعری کا استاد اور امام ہے، میں نے کبھی کسی استاد سے شاعری نہیں سیکھی۔ ایک شخص نے پوچھا کہ آپ کو شاعری کیسے آگئی؟ میں نے کہا کہ مجھ کو تمہارے درد نے یعنی اللہ تعالیٰ کے درد نے شاعر بنادیا، اللہ تعالیٰ کی محبت کا درد جس کو مل جاتا ہے پھر اس کی شاعری شاعری ہوتی ہے ورنہ محض تُک بندی اور دماغی کوشش ہوتی ہے۔