سکون قلب کی بے مثال نعمت |
ہم نوٹ : |
|
اُنہوں نے اپنا خون بالاکوٹ کے پہاڑوں کی گھاس اور تنکوں پر بکھیر دیا تھا۔ یہ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے پوتے تھے، جب یہ دلّی کی سڑکوں سے گزرتے تھے تو لوگ ان کے ادب میں اس طرح کھڑے ہوجاتے تھے جس طرح مغلیہ شہزادوں کے ادب میں کھڑے ہوتے تھے، دلّی کے لوگ شاہ ولی اللہ کے بیٹوں اور پوتوں کا اتنا ادب کرتے تھے۔مولانا شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ بہت ناز و نعم میں پلے ہوئے تھے لیکن جہاد کی تیاری کے شوق میں دلّی میں دریائے جمنا میں کود پڑتے تھے اور تیرنے کی اتنی مشق کرتے تھے کہ تقریباً دو سو کلو میٹر دور آگرہ میں نکلتے تھے۔ میرے پیر و مرشد شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ بھری برسات میں دلّی میں دریائے جمنا میں کود کر تیرتے ہوئے آگرہ میں نکلتے تھے تاکہ اگر جہاد میں دریا میں کودنا پڑے تو مشکل پیش نہ آئے۔ دلّی کی مسجد فتح پوری میں دن کے بارہ بجے جون کے مہینہ میں جب پتھر اتنا گرم ہورہا ہوتا تھا کہ پاؤں میں چھالے پڑجاتے تھے، اُس پر پاؤں رکھ کر چلنے کی مشق کرتے تھے۔ تو انہوں نے دلّی سے چل کر بالاکوٹ کی گھاس اور تنکوں پر اپنا خون بہایا۔ ایک شاعر نے کتنا پیارا شعر ان کے مقبرہ کی تختی پر لکھا ہے ؎ خونِ خود را بر کوہ و کوہسار ریخت اللہ کے اس عاشق نے اپنے خون کو بالاکوٹ کے پہاڑوں کی گھاس اور تنکوں پربکھیر دیا۔ اس کو عشق کہتے ہیں۔ نظر بازی آنکھوں کا زنا ہے یہ کیا عشق ہے کہ کوئی حسین عورت سامنے آجائے، اب نظر بچانا مشکل ہے۔ اس وقت یہ شخص سب فرمانِ رسالت اور فرمانِ عالی شان یعنی حق تعالیٰ شانہٗ کا قرآن پاک بھول جاتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں قُلْ لِلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمْ ۳؎ اے نبی! ایمان والوں سے فرمادیں کہ کسی کی بہو، بیٹی غرض نامحرم عورتوں میں سے کوئی بھی ہو اُس سے اپنی نظر کو نیچی کرلیں،یہ نہیں کہ اُلّو کی طرح سے منہ پھیلا کر دیکھ رہے ہیں کہ منہ میں پانی آرہا _____________________________________________ 3؎النور:30