سکون قلب کی بے مثال نعمت |
ہم نوٹ : |
|
سکونِ قلب صرف رضائے حق میں ہے تو دوستو! میں عرض کرتا ہوں کہ جو اللہ تعالیٰ کو خوش رکھے گا اور ان کو خوش رکھنا آسان کب ہوگا؟ جب ان کو خوش رکھنے والوں یعنی اللہ والوں کی صحبت میں رہے گا۔بغیر ٹریننگ اور تربیت کے ایک امرتی نہیں بنا سکتے ہو، لاکھ کتابیں پڑھ لو کہ امرتی ایسے بنتی ہے مگر جب امرتی بنانے بیٹھوگے تو چڑیا بناؤگے۔ تو جن لوگوں نے حرام خوشیوں سے توبہ کرلی،واللہ! منبر سے قسم کھاکر کہتا ہوں کہ اُن کے قلب میں اللہ نے خوشی کا جو عالَم عطا فرمایا ہے، اُس عالَم کے عالَم کو میں بیان نہیں کرسکتا کیوں کہ اُس بندہ نے اللہ کی ناخوشی کی راہوں سے اپنے نفس میں حرام خوشیوں کی درآمد سے توبہ کرلی کہ اے خدا! جن خوشیوں سے آپ ناخوش ہوتے ہیں ہم ایسی خوشیوں پر لعنت بھیجتے ہیں۔ شیطان کتنا ہی کہے کہ اس حسین کو دیکھ کر بہت مزہ آئے گا، اس کی ناک پتلی ہے، چہرہ کتابی ہے، ہونٹ لال ہیں، مگر اُس وقت میرا ایک شعر پڑھ لو ؎ ہم ایسی لذتوں کو قابلِ لعنت سمجھتے ہیں جن سے ربّ میرااے دوستو! ناراض ہوتا ہے جس نے اللہ کو ناراض کرکے، اُن کو ناخوش کرکے اپنے دل میں حرام خوشی درآمد کی اُس کے دل کا عالَم کیا ہوتا ہے، اُس کے چہرہ کو دیکھو، جتنے لوگ ٹیڈیوں کے پیچھے پھررہے ہیں آج اُن کی نیندحرام ہے، اُن کے چہرے بتارہے ہیں کہ بالکل بدحواس ہیں، کسی فاختہ کے پیچھے بےساختہ پھررہے ہیں اور حواس باختہ ہیں۔ اس پر مجھے اپنا شعر پڑھنا پڑتا ہے ؎ ہتھوڑے دل پہ ہیں مغزِ دماغ میں کھونٹے بتاؤ عشق مجازی کے مزے کیا لوٹے مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جس کی کالی زلفوں پر پاگل ہورہے ہیں، جو تمہاری عقل اُڑائے جارہی ہے، وہی حسینہ جب ستر سال کی بڈھی ہوجائے گی تو تم کو اس کی زلف بڈھے گدھے کی دُم معلوم ہوگی۔ مولانا نے بڈھے گدھے سے تشبیہ دی ہے، جوان گدھے سے تشبیہ نہیں دی کیوں کہ بعض منچلے ایسے ہیں کہ کہتے ہیں کہ جوانی جس کسی کی ہو بھلی معلوم ہوتی ہے۔