سکون قلب کی بے مثال نعمت |
ہم نوٹ : |
|
قوتِ ذائقہ بھی فیل ہوگئی، اُس کے منہ میں کباب رکھا جارہا ہے، وہ عاشق کباب تھا اور کہتا تھا ؎ کچھ نہ پوچھو کباب کی لذت مگر اب وہ کھانے پینے کی لذت سے بھی محروم ہوگیا، پیڑا ڈال کر لسی کے گلاس پر گلاس چڑھاتا تھا ، اُس کو احساس ہی نہیں ہوتا تھا کہ ایک دن یہ دن بھی آنے والا ہے۔ بتائیے! ہم سب پر ایک نہ ایک دن یہ وقت آنے والا ہے یا نہیں؟ یا کسی نے آب حیات پی رکھا ہے؟ لیکن آپ کو اس دن کے آنے کا فائدہ تب ہی ہوگا جب آپ اُس کو ہر وقت سوچتے رہیں۔ اصل حیات وہ ہے جو اپنی موت کو یاد رکھے قرآن پاک کی آیت ہے خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ 6؎ اس آیت میں اللہ نے موت کو پہلے بیان کیا، زندگی کو بعد میں بیان کیا۔ میرے حضرت شاہ عبدالغنی پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ نے جب اس آیت کی تفسیر بیان کی تو فرمایا کہ جو زندگی اپنی موت کو سامنے رکھتی ہے وہی زندگی وطن آخرت کے لیے کچھ کرتی ہے یعنی اللہ کو یاد کرتی ہے۔ اور وہ سمجھتا ہے کہ یہ سب چیزیں ایک دن ختم ہونے والی ہیں۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ نے اس قصہ کو بیان کرکے فرمایا کہ اے دنیا والو! تم دنیا کے مکان، وی سی آر ، ٹیلی ویژن اور مرسڈیز کاروں کو، بینک بیلنس کو اور اپنی شان اورٹھاٹھ باٹ کو دیکھ کر جو خوش ہورہے ہو تو ان خوشیوں کا کوئی بھروسہ نہیں ہے، تمہارا جسم بھی مثل اُس قلعہ کے پانچ دریاؤں سے ذائقہ حاصل کررہا ہے۔ کانوں سے سن کر، آنکھوں سے دیکھ کر، ناک سے سونگھ کر، زبان سے چکھ کر، ہاتھوں سے چھو کر۔ جب موت کا فرشتہ آئے گا تو ان پانچوں دریاؤں پر بند باندھ دے گا تب صرف اللہ ہی سے دل بہلے گا لہٰذا اسی زندگی میں اللہ کو راضی کرلو ؎ موت کی تیز و تند آندھی میں زندگی کے چراغ جلتے ہیں پینتالیس سال کی عمر میں مولانا سعدی مکہ شریف میں چائے پی رہے تھے۔ مجھے ٹیلی فون آیا کہ ان کا ہارٹ فیل ہوگیا، چائے پیتے پیتے ان کے ہاتھ سے پیالی گری اور وہ ختم ہوگئے، حالاں کہ _____________________________________________ 6؎الملک:2