سکون قلب کی بے مثال نعمت |
ہم نوٹ : |
|
ذاکر ذکر کی برکت سے مذکور تک پہنچ جاتا ہے اللہ کے نام میں ایسے مقناطیسی اثرات ہیں کہ اگر کوئی کسی اللہ والے کے مشورے کے مطابق اُن کا نام لیتا ہے تو اس کا دل ان سے چپک جاتا ہے۔ اب آپ کہیں گے کہ جناب آپ ہمیں چھوڑتے ہی نہیں،کہتے ہیں کہ کسی اللہ والے کو پیر نہیں بناتے تو مشیرہی بنالو۔ خواجہ صاحب نے حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا تھا کہ بغیر پیر کے ہم محض ذکر سے اللہ تک کیوں نہیں پہنچ سکتے؟ تو حضرت نے فرمایا کہ پہنچوگے تو ذکر ہی کی برکت سے، جیسے کاٹتی تو تلوار ہی ہے مگر جب کسی سپاہی کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ تو ذکر کے ساتھ اور کسی مشیر اور مربّی کے مشورے سے کہ اُس کی توجہ بھی ہونی چاہیے ذاکر اﷲ تک پہنچ جاتا ہے۔ مرغی کا بچہ تو انڈے ہی سے نکلے گا مگر اُس کو مرغی کے جسم کی گرمی چاہیے، اگر انڈوں کو اکیس دن تک مرغی کی گرمی نہ دو بلکہ کتاب لے کر گرمی کا مضمون سناتے رہو، تو انڈے میں حیات آئے گی؟ اور ایک بات یہ بھی ہے کہ یہ نہ دیکھو کہ میں زیادہ علم والا ہوں اور میرے پیر کا علم مجھ سے کم ہے۔ حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بطخ مرغی سے افضل ہے لیکن بطخ کا انڈہ اگر مرغی کی گرمی پائے گا تب ہی اُس سے بطخ نکلے گی اور وہ تیرنے بھی لگے گی حالاں کہ مرغی تیر نہیں سکتی لیکن بطخ شرافت کی وجہ سے یہ کہے گی کہ مرغی صاحبہ! آپ ہی کی گرمی سے مجھے حیات عطا ہوئی ہے، گو اللہ نے مجھے آپ پر فضیلت دی ہے کہ میں پانی میں تیر سکتی ہوں اور آپ پانی میں نہیں تیر سکتیں۔ دیکھیں! حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی آغوشِ گرمی میں مجدد زمانہ حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کی تربیت ہوئی لہٰذا یہ مت سوچو کہ ارے گرمی حاصل کر لو پھر تمہاری صلاحیت تمہیں خود ہی اُڑا دے گی بلکہ جس کی گرمی سے آپ کو حیاتِ روحانی عطا ہوئی ہے ساری عمر اس کے شکرگزار رہو۔ بطخ پر ایک لطیفہ یاد آیا۔ تھانہ بھون میں ایک لڑکا تھا، اُس کو بطخ سے بہت محبت تھی، جب اُس کا استاد کہتا تھا کہ بیٹا! پڑھو تَا،بَا زبر تَبْ،بَا،تَا زبر بَتْ، تَبَّتْ ، تو وہ ہجے صحیح کرتا تھا، مگر جب استاد کہتا تھا کہ اچھا ملاکر پڑھو تَبَّتْ تو کہتا تھا بطخ۔آہ! اُس کے دل میں بطخ ہی گھسی ہوئی تھی۔