Deobandi Books

سکون قلب کی بے مثال نعمت

ہم نوٹ :

8 - 34
ہوگی تو اُس کام کو کوئی عقل مند آدمی نہیں کرسکتا، البتہ پاگل مستثنیٰ ہے، پاگل پریشانی والا کام بھی کرلے گا اور ہاں بندر بھی مستثنیٰ ہے۔ بندر پر دو لطیفے یاد آگئے۔
ایک جعلی پیر نے کوئٹہ میں ایک شخص سے کہا کہ تمہاری ترقی ہوجائے گی،تم کو پرموشن مل جائے گا بشرطیکہ میرے کمرہ میں جہاں مرید لوگ آتے ہیں وہاں عمدہ قسم کے صوفے اور عمدہ قسم کے قالین ڈلوادو اور ایک وظیفہ بھی پڑھنا پڑے گا، اُس میں ایک شرط یہ ہے کہ وظیفہ پڑھتے وقت بندر کا خیال نہ کرنا۔ تو اس نے کہا حضور! صوفہ کتنے میں آئے گا، آپ ہم سے نقد لے لیجیے، اپنی پسند کا سامان خرید لیجیے۔یہ آج سے پندرہ برس پہلے کی بات ہے۔ تو جعلی پیر نے دس ہزار روپے لے لیے۔ اب جناب بجائے ترقی ہونے کے وہ جس عہدہ پر تھا اُس سے بھی نیچے گرگیا، اب اُسے بہت غصہ آیا، اُس نے جعلی پیر سے کہا کہ آپ نے صوفہ کا عیش بھی حاصل کرلیا، میں نے دس ہزار روپے بھی دے دیے اور آپ کا بتایا ہوا  وظیفہ بھی پڑھا لیکن آپ نے جو کہا تھا کہ ترقی ہوجائے گی، تو ترقی کے بجائے تنزلی ہوگئی۔ اُس نے کہا کہ صاحب! آپ نے وظیفہ پڑھنے کی شرط پوری نہیں کی تھی۔ یہ پیر بہت چالاک تھا، اُس نے کہا کہ جب تم نے وظیفہ شروع کیا تھا تو بندر کا خیال آیا تھا کہ نہیں؟ اُس نے کہا کہ اگر تو مجھے بندر کے خیال سے منع نہ کرتا تو زندگی بھرکبھی بندر کا خیال نہیں آتا لیکن اَلْاِنْسَانُ حَرِیْصٌ فِیْمَا مُنِعَ  انسان  کو جس چیز سے منع کردیا جاتا ہے اسے خواہ مخواہ اُس چیز کا خیال آتا ہے لہٰذا تم نے ایسی شرط لگائی کہ اگر ہم بھی تمہیں اس شرط کے ساتھ کوئی وظیفہ بتادیں تو تم بھی مستثنیٰ نہیں ہوسکتے۔
دوسرا لطیفہ یہ ہے کہ نقل کے لیے عقل چاہیے۔ ایک بندر درخت پر بیٹھا کارپینٹر یعنی بڑھئی کو لکڑی چیرتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ اتنے میں بڑھئی کوناشتہ  کے لیے گھر جانا پڑا تو اُس نے لکڑی کا جتنا حصہ چیر دیا تھا اُس میں لکڑی کا ایک ٹکڑا لگا دیا تاکہ دونوں حصے پھر مل نہ جائیں۔ اب بندر کو خیال آیا کہ کیا وجہ ہے کہ انسان جو کام کرے ہم نہ کرسکیں۔ اس نے درخت سے اُتر کر آرا چلانا شروع کردیا۔ جب اُس نے تھوڑا سا آرا چلایا اور لکڑی کے دونوں حصوں کا فاصلہ زیادہ ہوا تو لکڑی کا وہ ٹکڑا جو بڑھئی پھنسا کر گیا تھا گرگیا جس کی وجہ سے لکڑی کے دونوں حصے آپس میں مل گئے اور بندرکا ایک پیر اس میں آگیا۔ اب بندر ایسا زور سے چلّایا
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 انسان کےہر عمل کا مقصد حصولِ سکون ہے 7 1
3 گناہوں سے لذّت حاصل کرنے والے کی مثال 9 1
4 گناہ کے تقاضوں کا علاج 10 1
5 اہل اللہ کی صحبتوں سے گناہ چھوڑنا آسان ہوجاتا ہے 10 1
6 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےپیارے امتی کون ہیں؟ 11 1
7 انسان کی عبادت فرشتوں سے افضل کیوں ہے؟ 12 1
9 نظر بازی آنکھوں کا زنا ہے 13 1
10 استحضارِ حق کے لیے ایک مفید مراقبہ 14 1
11 بدنظری حلال نعمتوں کی لذت بھی خراب کردیتی ہے 15 1
12 نفس کی قید سے رہائی کا طریقہ 16 1
13 علم نبوت کتابوں سے اور نورِ نبوت صحبتِ اہل اللہ سے حاصل ہوتا ہے 16 1
14 دین کس سے سیکھنا چاہیے؟ 17 1
15 اہل اﷲ کی صحبت سے سلوک آسان ہوجاتا ہے 18 1
16 ذاکر ذکر کی برکت سے مذکور تک پہنچ جاتا ہے 19 1
17 سکونِ قلب صرف رضائے حق میں ہے 20 1
18 انبیاء علیہم السلام سب سے بڑے ماہرین نفسیات ہیں 21 1
19 موت دنیاکی تمام لذتوں کو ختم کردیتی ہے 21 1
20 اصل حیات وہ ہے جو اپنی موت کو یاد رکھے 23 1
21 ذکر اللہ کی دو اقسام 24 1
22 داڑھی مونچھ کے شرعی احکام 25 1
23 مردوں کے لیے ٹخنہ چھپانا حرام ہے 28 1
24 والدین سے حسن سلوک کے لیے اللہ تعالیٰ کا حکم 29 1
25 امّت کی پریشانی کے اسباب 29 1
26 شوقِ جہاد میں مولانا شاہ اسماعیل شہیدرحمۃ اللہ علیہ کے مجاہدات 12 1
27 پیش لفظ 6 1
Flag Counter