ایمان اور عمل صالح کا ربط |
ہم نوٹ : |
|
از رُوئے حدیثِ پاک گناہ کی دو علامات تو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے مَنۡ عَمِلَ صَالِحًا کی شرط لگائی ہے کہ جو نیک عمل کرے گا،صالح عمل کرے گا، اچھا عمل کرے گا اور اچھا عمل کیا ہے؟ جس سے ہم خوش ہوں، اور بُرا عمل کیا ہے؟ جس سے ہم ناراض ہوں، اس کے لیے آپ کو کنز الدقائق پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے، یہی فارمولا اور تھرمامیٹر سامنے رکھ لو کہ جب کوئی عمل کرو تو اپنے دل سے پوچھ لو کہ یہ عمل اچھا ہے یا بُرا، اور یہ آپ کا دل بتادے گاکیوں کہ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے گناہ کی دو علامات ارشاد فرمادیں: اَلْاِثْمُ مَا حَاکَ فِیْ صَدْرِکَ وَکَرِھْتَ اَنْ یَّطَّلِعَ عَلَیْہِ النَّاسُ 2 ؎اَلْاِثْمُ مَا حَاکَ فِیْ صَدْرِکَ گناہ کی حقیقت یہ ہے کہ تمہارے دل میں کھٹک پیدا ہو جائے، دل میں تردّد پیدا ہوجائے کہ میں یہ کیا کررہا ہوں، کسی گناہ سے گناہ گار خود بھی مطمئن نہیں ہوتا۔ اسی لیے گناہ کرنے کے بعد وہ شرمندگی میں مبتلا ہوجاتا ہے، یہ شرمندہ ہونا دلیل ہے کہ ہم سے گناہ ہوگیا۔ آدمی نیک کام کرکے کبھی شرمندہ نہیں ہوتا۔ نماز پڑھ کے، تلاوت کرکے، کسی اللہ والے سے ملاقات کرکے، عمرہ کرکے یا حج کرکے کسی کو شرمندگی ہوتی ہے؟ تو شرمندگی ہونا اور دل میں کھٹک ہونا ایک علامت ہوگئی۔ ۲۔اور دوسری علامت ہے وَکَرِھْتَ اَنْ یَّطَّلِعَ عَلَیْہِ النَّاسُ اور تم کو یہ بات ناگوار ہو کہ کوئی تمہارے گناہ کو نہ جان لے، اب ہر طرف دیکھ رہاہے کہ کوئی دیکھ نہ لے کوئی جان نہ جائے اور کسی کے دیکھنے سے اپنے گناہ کو کیوں چھپا رہا ہے؟ تاکہ وہ جان نہ جائے کہ صورت ہم چنیں اور عمل ہم چناں۔ تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے گناہ کی دو علامات بتادیں۔ گناہ کا جو کام بھی کرے گا ان دو علامات سے اس کا خروج نہیں ہوگا، گناہ کے لیے یہ دو علامات لازمی ہیں چاہے صورت بگاڑو چاہے سیرت۔ داڑھی کتنی بڑی رکھنی چاہیے؟ جو سنت کے خلاف صورت اختیار کرتا ہے اس کا دل اندر سے ملامت کرتا ہے کہ _____________________________________________ 2؎صحیح مسلم:2/314، کتاب البر و الصلۃ و الاٰداب، باب تفسیر البر و الاثم ،ایج ایم سعید