ایمان اور عمل صالح کا ربط |
ہم نوٹ : |
|
تو اُس کو قسطوں پر دے دو، پیسہ ملنے کا آسرا تو ہے، ہزار پانچ سو روپیہ مہینہ باندھ دو یا اس کے بدلے اپنے یہاں صفائی کرواتے رہو، وہ بھی کہے گا کہ چلو مفت میں ملا۔ آیت مَنۡ عَمِلَ صَالِحًا … الخ کی ایک علمی شرح تو اﷲ تعالیٰ نے یہاں عملِ صالح کو پہلے کیوں بیان کیا اور وَ ہُوَ مُؤۡمِنٌ کو بعد میں کیوں بیان فرمایا؟ اس کا ایک جوابِ علمی یہ آیا کہ عربی گرامر، عربی اصول کی رُو سے حال ہمیشہ بعد میں ہوتا ہے اور ذوالحال پہلے بیان کیا جاتا ہے جیسے اہلِ عرب کہتے ہیں جَاءَ زَیْدٌ رَاکِبًا عَلَی الْفَرَسِ زید میرے پاس آیا گھوڑے پر سوار ہو کر تو یہ گھوڑے کی سواری رَاکِبًا عَلَی الْفَرَسِ جو حال ہے زید کا یہ بعد میں بیان ہوا ہے اور زید جو ذوالحال ہے یہ پہلے بیان ہوا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے عربوں کا دل خوش کرنے کے لیے اُن کے قواعد کی رعایت پر قرآنِ پاک نازل فرمایا۔ آج اہلِ عرب قرآنِ پاک کی سب سے زیادہ تلاوت کر رہے ہیں، اگر یہ اللہ تعالیٰ کا کلام نہ ہوتا تو جن کی زبان عربی ہے وہ یہی کہتے کہ ارے ایسی عربی تو ہم بھی رات دن بولتے رہتے ہیں لیکن آپ دیکھیے کہ مسجدِ نبوی میں اور حرمِ کعبہ شریف میں اہلِ عرب قرآنِ پاک کی کتنی تلاوت کرتے ہیں، اگر جماعت کھڑی ہونے میں پانچ منٹ بھی باقی ہیں تو فوراً قرآن شریف کھولیں گے اور تلاوت شروع کردیں گے۔ کیوں صاحب! یہ عربی کے ماہرین ہیں، عربی اِن کی مادری زبان ہے مگر ان میں کلام اللہ کی اتنی عظمت اور محبت کیوں ہے؟ اِن کے دل میں بھی اس کی عظمت ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، یہ عربوں کا کلام نہیں ہے، خالق ِ عرب و العجم کا کلام ہے۔ اعمالِ صالحہ کے مدارج ایمان کے مدارج پر موقوف ہیں تو وَ ہُوَ مُؤۡمِنٌ کے مَنۡ عَمِلَ صَالِحًا کے بعد ہونے کی ایک وجہ تو دل میں یہ آئی کہ حال بعد میں آتا ہے ذوالحال سے۔ اور دوسری وجہ میرے قلب میں اللہ تعالیٰ نے یہ ڈالی کہ اعمالِ صالحہ کی خوبصورتی اور دردِ دل اور ذوقِ سجدہ اور ذوقِ اخلاص اور ذوقِ ایمان اور ذوقِ یقین کی ساری بنیاد وَ ہُوَ مُؤۡمِنٌ پر ہی ہے، تم جیسے مؤمن ہوگے ویسا تمہارا سجدہ ہوگا، ویسی تمہاری نماز ہوگی۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے یہاں حال کو اس لیے مؤخر کر دیا کہ اعمالِ صالحہ کی بنیاد اور اُس کی کیفیات