ایمان اور عمل صالح کا ربط |
ہم نوٹ : |
|
اور اُس کے مرتبوں کی بلندیاں اور اس کے مراتبِ عالیہ وابستہ ہیں ایمان کے مراتبِ عالیہ سے لہٰذا جیسا اعلیٰ درجے کا ایمان ہوگا ویسا ہی عمل بھی اعلیٰ درجے کا ہوگا۔ اسی لیے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم صحابہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اے لوگو! اگر میرا صحابی ایک مٹھی جَو اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کردے، ایک مٹھی گندم خرچ کردے اور غیر صحابی اُحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کردے تو غیر صحابی کا اُحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرنا میرے صحابی کے ایک کلو جو اور گندم کو نہیں پا سکتا۔ کیوں؟ وَ ہُوَ مُؤۡمِنٌ تم مؤمن تو ہو مگر صحابہ جیسے مؤمن نہیں ہو۔ جس کا ایمان جس مرتبے کا ہوگا عملِ صالح بھی اُسی مرتبے کا ہوگا۔ تو وَ ہُوَ مُؤۡمِنٌ حال ہے اور مَنۡ عَمِلَ صَالِحًا میں جو مَنۡ ہے یہ اس کا ذوالحال ہے۔ اِس حال کے اندر بہت بڑے اسرار ِ معرفت پوشیدہ ہیں کہ جیسا مؤمن ہوگاویسا ہی اُس کا عملِ صالح ہوگا۔ تو جتنا اچھا حال ہوتا ہے ذوالحال بھی اتنا ہی شاندار ہوتا ہے۔ نیک عمل کے ساتھ یہاں اللہ تعالیٰ نے وَ ہُوَ مُؤۡمِنٌ کی قید لگادی کہ جیسا تمہارا ایمان ہوگا ویسا ہی عملِ صالح ہوگا، جتنا بڑا انجن ہوگا اتنی ہی بلند پرواز تم کو عطا ہوگی، جمبو کا انجن ہوگا تو جمبو کی پرواز عطا ہوگی، ایئر بس کا انجن ہوگا تو ایئر بس کی پرواز عطا ہوگی۔ اگر کوئی گدھے پر سوار ہوکر آئے تو سمجھ لو کہ یہ راکب یعنی سوار کس مقام کا ہے، اور اگر گھوڑے پر سوار ہوکر آئے تو سمجھ لو کہ راکب بھی کوئی چیز ہے، اور اگر مرسڈیز کار پر آئے تو سمجھ لو کہ اس کا حال اور اچھا ہے اور اگر جمبو پر آئے تو سب سے اچھا حال ہے۔ تو حالات میں فرق ہوتا ہے، اسی کے بقدر ذوالحال میں فرق ہوتا ہے۔ جو مؤمن اچھے اعمال سے اللہ کو ہر وقت خوش رکھتا ہے اور ایک لمحہ بھی اللہ تعالیٰ کو ناراض نہیں کرتا اس کا حال نہایت شاندار ہے۔ معصیت اور عملِ صالح میں تضاد ہے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے شرطِ مثبت بیان فرمائی ہے مَنْ عَمِلَ صَالِحًا یعنی جو نیک عمل کرے لیکن اس شرطِ مثبت کے اندر شرطِ منفی موجود ہے۔ آپ بتائیے! جس وقت کوئی گناہ کرتا ہے اُس وقت اس کا شمار مَنۡ عَمِلَ صَالِحًا کے اندر رہتا ہے؟ مَنۡ عَمِلَ صَالِحًا یعنی جو اچھا عمل کرے تو حالتِ گناہ میں وہ مَنۡ عَمِلَ صَالِحًا ہے یا غیر صالح عمل کر رہا ہے؟ تو کیا اس شرطِ