ایمان اور عمل صالح کا ربط |
ہم نوٹ : |
|
چناں چہ لڑکیوں کے ایک اسکول کے پرنسپل نے جب حفاظتِ نظر کا یہ مضمون سُنا توکہا کہ صاحب یہ بھی کوئی زندگی ہے کہ نظر ہی نہ ڈالیں، ہمارے یہاں تو ہر وقت لونڈیاں آتی ہیں، ہر قسم کے لباس میں، مختلف قسم کے ڈیزائن میں، ہم تو یہی ڈیزائین دیکھتے رہتے ہیں، ہمیں آپ کا یہ مضمون پسند نہیں آیا۔ بس میں سمجھ گیا کہ بدنظری سے اس کا دل اور دماغ سڑگیا ہے اس لیے عود کے مضمون میں اس کو خوشبو محسوس نہیں ہوئی۔ عود کا عطر سب سے مہنگا بکتا ہے مگر زُکام کے مرض والے سے کیا کہیں۔ بہرحال جن کو میری پروانہیں ہے مجھ کو بھی ان کی پروا نہیں ہے۔ بعض لوگ ایسے آئے کہ میرے ایک دو مضمون سُنے اور کہا کہ بھئی! وہاں تو بس ہر وقت نظر بچانے کی بات ہوتی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اگر نظر نہیں بچاؤ گے تو ہماری سرحدیں پولیس چوکیوں سے خالی ہو جائیں گی اور دشمن جب چاہے گا اندرگُھس جائے گا، بد نظری کے مرض کے بیان پر مذاق اُڑانے والا وہ بے وقوف ہے جو کسی سلطنت کی سرحدی چوکیوں کو ناگواری اور حقارت سے دیکھ رہا ہے کہ کیا پوری سرحد پر جگہ جگہ چوکیاں بنی ہوئی ہیں، ایئرپورٹ پر بھی تھوڑی تھوڑی دور پر چوکیاں بنی ہوتی ہیں اور پولیس والے بندوق لیے کھڑے ہوتے ہیں، ان سے بھی کہو کہ بھئی تم لوگ یہاں کیوں کھڑے ہو؟ کیوں وقت ضایع کرتے ہو؟ حکیم اختر کے شاگرد معلوم ہوتے ہو جو ایئر پورٹ کی سرحدوں کی حفاظت کررہے ہو، معلوم ہوتا ہے خانقاہ گلشن سے تمہارا کنکشن اور رابطہ ہے۔ اللہ کے عشاق کی نقل سے اللہ کی محبت بڑھتی ہے اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس گول ٹوپی میں ایک بڑے تاجر یہاں سے برطانیہ گئے اور برطانیہ کی ایک مسجد میں جب داخل ہوئے تو ٹوپی دیکھتے ہی ایک شخص نے کہا کہ کیا کراچی کے گلشن اقبال سے تعلق ہے؟ مسجدِ نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں ایک شخص کی گول ٹوپی دیکھ کر وہاں بھی لوگوں نے کہا کہ بھئی کیا آپ کا تعلق گلشن اقبال کراچی سے ہے؟ ہم جو یہ ٹوپی پہنتے ہیں تو اپنے اکابر حضرت تھانوی، حضرت نانوتوی، حضرت گنگوہی کی نقل کرتے ہیں گو ہم اس کو واجب نہیں کہتے، شریعت میں ہم دخل نہیں دیتے لیکن ہم اپنے بزرگوں کی نقل کرتے ہیں،اور اس کو ہم اس لیے اچھا سمجھتے ہیں کیوں کہ ہمیں وہ لباس محبوب ہے جو ہمارے بزرگوں