ایمان اور عمل صالح کا ربط |
ہم نوٹ : |
|
کا لباس ہے، محبوب کا لباس بھی محبوب ہوتا ہے۔ تم جب سینما دیکھ کر نکلتے ہو تو فلم ایکٹروں کی طرح کمر پر ہاتھ رکھ کر کیوں مٹکتے ہوئے نکلتے ہو؟ اس لیے کہ تم اُن کی نقل کرتے ہو، اسی طرح ہم اللہ کے عاشقوں کی نقل کرتے ہیں، نقل باز تم بھی ہو نقل باز ہم بھی ہیں لیکن تم فساق کی نقل کرتے ہو اور ہم عشاق کی نقل کرتے ہیں۔ اللہ کے عاشقوں کی نقل کرنے سے محبت میں اضافہ ہوتا ہے، ہم شریعت میں اضافہ نہیں کرسکتے نہ کسی مُرشدکو یہ حق حاصل ہے کہ وہ غیر واجب کو واجب کردے یا مغرب کی تین رکعت کو ساڑھے تین کردے، مقادیرِ شریعت تو وہی رہیں گے جو عہدِ نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں نازل ہوئے مگر محبت کی کمی سے اُس مقدارِ شریعت میں اور تعدادِ شریعت میں کیفیت بدلتی جارہی ہے۔ صحابہ کے زمانے میں جو کیفیات تھیں آج وہ کیفیات نہیں ہیں، بھاپ وہ نہیں ہے، اِسٹیم وہ نہیں ہے، جمبو جہاز وہی ہو لیکن اگر پیٹرول کم ہو، اسٹیم کم ہو تو انجن کتنا ہی شاندار ہو وہ مال گاڑی ہی رہے گا، تیزگام نہیں ہوگا۔ چاٹگام کے نام کی ایک دلچسپ شرح تیزگام پر ایک لطیفہ یاد آگیا۔ بنگلہ دیش کے شہر چاٹگام میں جب میرے مُرشد شاہ ابرارالحق صاحب دامت برکاتہم و عمت فیوضہم پہنچے تو چاٹگامیوں سے فرمایا کہ اے چاٹگام کے رہنے والو! چاٹگام کے معنیٰ بھی معلوم ہیں؟ یہاں ایک لفظ محذوف ہے اور وہ ہے اولیاء۔ گام معنیٰ قدم، جیسے کہتے ہیں تیزگام یعنی تیز چلنے والی ریل، اصل میں چاٹگام ہے چاٹ گامِ اولیاء یعنی اللہ والوں کے قدم چاٹو یعنی اُن کا ادب کرو، اُن سے محبت کرو اور اُن کے ساتھ چمٹے رہو۔ اولیاء اللہ باعتبارِ روح عرشِ اعظم سے رابطہ رکھتے ہیں قدم سے ایک واقعہ یاد آیا۔ حکیم الامت نے فرمایا کہ ایک چیونٹی نے درخواست کی کہ اے خد ا !میں کعبہ حاضر ہونا چاہتی ہوں مگر میری رفتار اور میری کمزوریوں سے آپ باخبر ہیں، آپ ہی نے تو مجھے چیونٹی بنایا ہے، بازِ شاہی بھی نہیں بنایا اور کبوتر بھی نہیں بنایا کہ میں اُڑکر پہنچ جاؤں۔ آواز آئی کہ ایک کبوتر کعبے شریف سے بھیج رہا ہوں، وہ کبوتر ِ حرم ہے، اُس کو