ایمان اور عمل صالح کا ربط |
ہم نوٹ : |
|
اللہ والے عالم کیسے ہوتے ہیں۔ جب رس گلّہ کھاؤگے تو گلّہ بھی ملے گا اور رس بھی ملے گا۔ جب عالم عاشق مل جائے گا تو ان شاء اللہ تعالیٰ اس پر فِدا ہوجاؤگے کہ ہمیں تو خبر بھی نہیں تھی کہ اللہ والوں کے پاس یہ مزہ ملتا ہے۔ پوچھ لو ان سے جو اختر کے پاس وقت لگارہے ہیں حالاں کہ اختر اللہ تعالیٰ کے عاشقوں کا ادنیٰ غلام ہے مگر ذرا ان لوگوں سے پوچھو جو میرے پاس چلّہ لگا رہے ہیں کہ اختر کے پاس کیا مزہ آرہا ہے۔ ابھی پندرہ بیس دن ہوئے برطانیہ سے ایک لڑکا آیا ہے، باٹلی میں رہتا ہے، اُس سے پوچھو کہ تمہیں برطانیہ میں زیادہ مزہ آرہا تھا یا یہاں زیادہ مزہ آرہا ہے اور میرے سامنے بھی مت پوچھوکہ میرے منہ پر میری بات کرے گا، تنہائی میں پوچھو کہ سچ سچ بتاؤ کہ تمہیں کہاں زیادہ مزہ آیا ؟ اور ابھی امریکا سے ایک لڑکا آیا تھا ضیاء الرحمٰن، وہ بھی روتا ہوا گیا ہے۔ میں ان کو حلوہ پوری نہیں کھلاتا بلکہ کڑوی باتیں بتاتا ہوں کہ گناہوں کو چھوڑ دو، ویڈیو چھوڑ دو، ٹی وی چھوڑ دو لیکن پہلے اللہ کی رحمت سے ا ن کو محبت کا ایسا نشہ پلادیتا ہوں کہ گناہ چھوڑنا ان کو لذیذ ہوجاتا ہے۔ جب اللہ کی محبت دل میں آتی ہے تو ٹی وی کیا وہ غیر اللہ کی ہر زنجیر توڑ دیتا ہے۔ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ اے دنیا والو! اگر تم اللہ کی نافرمانی کی، رومانٹک دنیا کی دو سو زنجیریں لاؤ گے تو ہم دو سو زنجیریں توڑ دیں گے اور کسی حسین کو دیکھیں گے بھی نہیں، لیکن اگر اللہ کی محبت کی زنجیر لاؤ گے تو جلال الدین اُس میں گرفتا ر ہونے کے لیے مشتاقانہ منتظر ہے۔ آہ کیا پیارا شعر ہے! ؎ غیر آں زنجیرِ زُلفِ دلبرم گر دو صد زنجیر آری بردرم اے دنیا والو! بصدقہ و طفیل شمس الدین تبریزی کے جلال الدین رومی کا ایمان اور اللہ کی محبت کا عہد و پیمان اتنا مضبوط ہو چکا ہے کہ اگر تم دنیا کے حسینوں کی، رومانٹک دنیا کی دو سو زنجیریں لاؤ گے تو میں سب زنجیروں کو توڑ دوں گا لیکن اگر میرے محبوب، میرے دلبر، میرے پیارے اللہ کی زنجیرِ شریعت اور زنجیرِ احکامِ الہٰیہ لاؤگے تو اپنی گردن میں اللہ کی محبت کے احکام کا طوق شوق سے ڈالوں گا اور زنجیرِ شریعت کو سر آنکھوں پر رکھوں گا اور حکمِ الٰہی کو نہیں توڑوں گا، اِسی کانام تصوف ہے۔ جو ظالم اپنا دل نہیں توڑتا اور حرام لذتیں چکھتا ہے یہ ظالم دِل کو برباد کرنے والا ہے،