پوشیدہ ہے۔ تم نے اچھے دل سے، صاف دل سے اور پکے ارادے اور اخلاص کے ساتھ اللہ کو اپنا مراد نہیں بنایا اور اس اللہ والے سے تمہارا تعلق ڈھیلا ڈھالا ہے کہ اپنی رائے کو تم نے فنا نہیں کیا، اس کی تجویزات اور مشوروں کی اتباع کامل نہیں کی۔ یہی دلیل ہے کہ اللہ والوں کے ساتھ تمہاری پیوندکاری صحیح نہیں ہے۔ ہمیں اللہ والوں کے ساتھ اس ارادے سے رہنا ہے کہ اللہ ہماری مراد ہوجائے اور وہ مراد مل بھی جائے۔ ایک ہے مراد ہونا، دل میں ارادہ ہونا کہ میری یہ مراد ہے اور ایک مراد مل جانا ہے، مراد کا پاجانا ہے دونوں میں فرق ہے۔ اللہ تو ہر مؤمن کا مراد ہے مگر دل میں مراد پاجاؤ،اللہ تعالیٰ مل جائے، مولیٰ کا قربِ خاص دل محسوس کرنے لگے،یہ بغیر اس ٹیکنالوجی کے اور اس پیوندکاری کے یعنی صاف قلب سے، اخلاص کے ساتھ کسی اللہ والے کے ساتھ رہے بغیر ممکن نہیں۔ اگر اللہ والے سے صحیح تعلق نصیب ہوجائے تو ایک دن ضرور بالضرور اللہ والے بن جاؤگے۔ یہ قرآنِ پاک کا اعلان ہے، یہ تصوف بلادلیل نہیں ہے۔ کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اگر تقویٰ حاصل کرنا چاہتے ہو تو صادقین کے ساتھ، ہمارے سچے بندوں کے ساتھ رہو اور صادقین سے مراد متقین ہیں اور متقین سے مراد اللہ کے اولیاء اور پیارے ہیں۔ اِنۡ اَوۡلِیَآؤُہٗۤ اِلَّا الۡمُتَّقُوۡنَ 10؎ لہذا پیاروں کے ساتھ رہوگے تو پیارے بن جاؤگے اور صادقین سے مراد متقین ہیں۔ اس کی دلیل ہے:
اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ صَدَقُوۡا ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُتَّقُوۡنَ 11؎
معلوم ہوا کہ جو صادق ہے وہ متقی ہے اور جو متقی ہے وہ صادق ہے اور جو متقی ہے وہ اللہ کا دوست ہے لہٰذا اللہ کے دوستوں کے ساتھ پیوندکاری کی ٹیکنالوجی حاصل کرو۔ دیسی آم کے لنگڑا آم بننے کی بھی ایک حد اور(limit)ہوتی ہے کہ اتنے دن تک لنگڑے آم کے ساتھ رہے کہ دیسی آدم کی بو اور خاصیت ختم ہوجائے اور لنگڑے آم کی خوشبو، لذت اور خاصیت آجائے۔ اسی طرح متقین صادقین یعنی اللہ کے دوستوں کے ساتھ نہایت قوی تعلق سے، اخلاصِ نیت سے اور اللہ کو دل میں مراد بناکر اتنے زمانے تک رہو کہ ان اللہ والوں کی عادت و خصلت، ان کا تقویٰ، ان کی خشیت، ان کی محبت اور ان کی وفاداری، ان کی آہ و زاری، ان کی
_____________________________________________
10؎ الانفال:34
11 ؎ البقرۃ:177