آداب راہ وفا |
ہم نوٹ : |
|
کی بات ہے کہ اس مالک کا رزق کھاکر اس کی مرضی کے خلاف دیکھتا ہے۔ جس نے رزق دے کر آنکھوں کو روشنی دی ہے اس رزّاق کو بے حیائی سے ناراض کرتا ہے۔ یہ موقع ہےاللہ تعالیٰ کے لیے تکلیف اُٹھانے کا۔ دل پر غم اُٹھالو! اپنی خوشیوں کو آگ لگادو! اللہ تعالیٰ کی خوشی کو اپنی خوشیوں پر مقدم کرو۔ مالک کا قانون نہ توڑو، اپنا دل توڑدو۔یہ ہے بندۂ باوفا۔ مولانا رومی صاحبِ قونیہ کی قبر کو اللہ تعالیٰ نور سے بھردے۔ آج کل میں مولانا رومی کو صاحبِ قونیہ کہہ رہا ہوں کیوں کہ جن لوگوں نے میرے ساتھ قونیہ کا سفر کیا ہے ان کی کافی تعداد یہاں موجود ہے، وہ جانتے ہیں کہ اس سفر میں کیا لطف آیا تھا، صاحبِ قونیہ کہنے سے وہ مزہ یاد آجاتا ہے۔ تو اگر کوئی حسین شکل سامنے آجائے تو صاحبِ قونیہ کا یہ مصرع پڑھ لیجیے کہ ؎ امر شہ بہتر بہ قیمت یا گہر فرماتے ہیں کہ نظر بچانے کا قانونِ خداوندی زیادہ قیمتی ہے یا یہ حسین موتی زیادہ قیمتی ہیں جن کی شکل بگڑنے کے بعد تم ان سے گدھے کی طرح بھاگوگے۔ حُمُرٌ مُّسۡتَنۡفِرَۃٌۙ ،فَرَّتۡ مِنۡ قَسۡوَرَۃٍ 13؎اے ظالمو! اب کیوں بھاگتے ہو؟ اب اس کی قیمت کیوں نہیں لگاتے؟ ان کے کرم کی بدولت ہماری یہ خرمستیاں ہیں، ورنہ اگر اللہ تعالیٰ ایک ایک فرشتہ مقرر کردیتا کہ جو کوئی کسی حسین کو دیکھے تین جوتے اس کی کھوپڑی پر لگاؤ تو ہر شخص دیکھتا رہتا کہ کس پر جوتے پڑرہے ہیں،کس قدر رسوائی ہوتی،مگر پھر عالم غیب نہ رہتا، عالم امتحان نہ رہتا۔ مالک کو ناراض کرنا حیا کے بھی خلاف ہے۔اس مالک کو ناراض نہ کرو جس نے ہمیں وجود بخشا، زندگی دی اور توفیق بندگی دی، مسلمان گھر میں پیدا کرکے ہم کو ایمان اور اسلام عطا فرمایا لہٰذا ایسے مالک کو خوش کرنے کے لیے قانونِ خداوندی کو مت توڑو، اپنا دل توڑ دو۔ میں پوچھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے قانون کی زیادہ عظمت ہے یا ہمارے دل کی؟ اور دل توڑنے کی یہ ہمت خانقاہوں سے اور اللہ والوں کی صحبت سے ملتی ہے۔ جب اللہ والوں کے ساتھ رہ کر بھی دل توڑنے کی توفیق نہ ہوئی تو بتاؤ پھر کہاں جاؤگے؟ حسینوں کے حسن کو ہینڈل نہ کرو، ورنہ سر پر ان ہی _____________________________________________ 13؎المدثر :50 -51