Deobandi Books

فضائل صدقات اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

97 - 607
ایک حدیث میں ہے کہ حضرت سعدؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میری والدہ اپنی زندگی میں میرے مال سے حج کرتی تھیں، میرے ہی مال سے صدقہ دیتی تھیں، صلہ رحمی کرتی تھیں، لوگوں کی اِمداد کرتی تھیں، اب ان کا انتقال ہوگیا۔ یہ سب کام اگر ہم ان کی طرف سے کریں تو اُن کو اِن کا ثواب پہنچے گا؟ حضورﷺ نے فرمایا: پہنچے گا۔ (کنز العمال)
ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک عورت نے حضورﷺ سے سوال کیا کہ میری والدہ کا دفعتاً انتقال ہوگیا۔ اگر دفعتاً نہ ہوتا تو وہ کچھ صدقہ وغیرہ کرتیں۔ اگر میں ان کی طرف سے کچھ صدقہ کروں تو ان کی طرف سے ہو جائے گا؟ حضورﷺ نے فرمایا: ہاں ان کی طرف سے صدقہ کردو۔ (ابوداود) اپنے ماں باپ، خاوند، بیوی، بہن، بھائی، اولاد اور دوسرے رشتہ دار، خصوصاً وہ لوگ جن کے مرنے کے بعد ان کا کوئی مال اپنے پاس پہنچا ہو یا ان کے خصوصی احسانات اپنے اوپر ہوں، جیسے اساتذہ اور مشایخ، ان کے لیے ایصالِ ثواب کا بہت زیادہ اہتمام کرنا چاہیے۔ بڑی بے غیرتی ہے کہ ان کے مال سے آدمی منتفع ہوتا رہے، ان کی زندگی میں ان کے احسانات سے فائدہ اٹھاتا رہے، اور جب وہ اپنے عطایا اور اپنے ہدایا کے ضرورت مند ہوں ا ن کو فراموش کر دے۔ آدمی جب مر جاتا ہے تو اس کے اپنے اعمال ختم ہو جاتے ہیں، بجز اس صورت کے کہ وہ کوئی صدقۂ جاریہ چھوڑ گیا ہو یا کوئی اور ایسا عمل کر گیا ہو جو صدقۂ جاریہ کے حکم میں ہو، جیسا کہ آیندہ آرہا ہے،اس وقت وہ دوسروں کے ایصالِ ثواب اور ان کی دعا وغیرہ سے اِمداد کا محتاج اور منتظر رہتا ہے۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ مردہ اپنی قبر میں اس شخص کی طرح سے ہوتا ہے جو پانی میں ڈوب رہا ہو اور ہر طرف سے کسی مددگار کا خواہش مند ہو۔ اور وہ اس کامنتظر رہتا ہے کہ باپ بھائی وغیرہ، کسی دوست کی طرف سے کوئی مدد دعا کی (کم از کم) اس کو پہنچ جائے۔ اور جب اس کو کوئی مدد پہنچتی ہے تو وہ اس کے لیے ساری دنیا سے زیادہ محبوب ہوتی ہے۔ (اِحیاء العلوم)
بِشر بن منصور ؒکہتے ہیں کہ طاعون کے زمانہ میں ایک آدمی تھے جو کثرت سے جنازوں کی نمازوں میں شریک ہوتے او ر شام کے وقت قبرستان کے دروازہ پر کھڑے ہو کر یہ دعا کرتے:
 آنَسَ اللّٰہُ وَحْشَتَکُمْ وَرَحِمَ غُرْبَتَکُمْ وَتَجَاوَزَ عَنْ سَیِّئَاتِکُمْ وَقَبِلَ اللّٰہُ حَسَنَاتِکُمْ ۔


اللہ تمہاری وحشت کو دل بستگی سے بدل دے اورتمہاری غربت پر رحم فرمائے۔ تمہاری لغزشوں سے درگزر فرمائے اور تمہاری نیکیوں کو قبول فرمائے۔
اس دعا کے بعد اپنے گھر واپس چلے جاتے۔ ایک دن اتفاق سے اس دعا کو پڑھنے کی نوبت نہیں آئی ویسے ہی گھر آگئے، تو 
Flag Counter