Deobandi Books

فضائل صدقات اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

302 - 607
حصہ دوم
 بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّيْ عَلَی رَسُوْلِہٖ الْکَرِیْمِ
چھٹی فصل
زہد وقناعت اورسوال نہ کرنے کی ترغیب میں
تالیف کے وقت یہ سب ایک ہی رسالہ تھا، لیکن طباعت کے وقت ضخامت کے بڑھ جانے کی وجہ سے چھٹی ساتویں فصل کو علیحدہ کرکے حصہ دوم قرار دے دیا کہ پڑھنے والوںکو اس میں شاید سہولت رہے۔
قناعت کی فضیلت، مصائب پر صبر کی ترغیب و تاکید اور سوال کرنے کی مذمت یہ تینوں چیزیں قرآنِ پاک اور احادیث میں اتنی کثرت سے مختلف عنوانات سے اور مختلف مضامین سے، مثالوں سے اور تنبیہوں سے، اَحکام سے اور قصوں سے ذکر کی گئی ہیں کہ ان کو اِجمالا اورمختصراً ذکر کرنا بھی بڑی تفصیل کو چاہتا ہے، جن کا اس مختصر رسالہ میں اِختصار سے لکھنا بھی رسالہ کے طویل ہو جانے کا سبب ہے۔ تاہم مختصراً تو کرنا ہی ہے۔ یہ مضمون دوسری فصل کے ختم پر گزر چکا ہے کہ مال میں نفع بھی ہے نقصان بھی ہے۔ یہ تریاق بھی ہے زہر بھی ہے۔ حضورﷺ کا پاک ارشاد ہے کہ ہر امت کے لیے ایک فتنہ ہوتا ہے میری امت کا فتنہ مال ہے۔ اس لیے اس فتنہ سے اور اس کے زہر سے اپنے کو محفوظ رکھنا بڑی اہم چیز ہے، اور یہ سانپ کسی کے پاس ہو تو اس سے اگر تریاق بنا لیا جائے تو اپنے لیے بھی مفید ہے دوسروں کو بھی فائدہ ہے، ورنہ اس کا زہر اپنے کو بھی ہلاک کر ے گا دوسروں کو بھی نقصان پہنچائے گا ۔ اسی لیے حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ یہ مال سرسبز وشاداب اور میٹھی چیز ہے۔ اگر اس کو حق کے موافق (یعنی شرعی ضابطہ اورطریقہ کے موافق )حاصل کرے اور حق کے موافق خرچ کرے تو کام آنے والی مددگار چیز ہے۔ اور جو بغیر حق کے حاصل کرے وہ ایسا ہے جیسا کہ آدمی کو جوع البقر ہو جائے کہ آدمی کھاتا رہے اور پیٹ نہ بھرے۔ (مشکاۃ المصابیح)
امام غزالی ؒ فرماتے ہیں کہ مال میں نفع بھی ہے اور نقصان بھی ہے۔ اس کی مثال سانپ کی سی ہے کہ جو شخص اس کامنتر جانتا ہے وہ سانپ کوپکڑ کر اس کے دانت نکال دیتا ہے، پھراس سے تریاق تیارکرتاہے اور اس کو دیکھ کر کوئی ناواقف شخص اس کو پکڑ لے تووہ سانپ اس کو کاٹ لے گا اور وہ ہلاک ہوگا۔ اور اس کے زہر سے وہ شخص محفوظ رہ سکتا ہے جو پانچ چیزوں کا اہتمام کرے۔ 
۱۔ یہ غور کرے کہ مال کامقصدکیا ہے؟ کس غرض سے یہ پیدا کیا گیا؟ تاکہ صرف وہی غرض اس سے وابستہ رکھی جائے۔ ۲۔ مال کے آنے اور حاصل کرنے کے طریق کی سختی سے نگرانی کرے، کہیں اس میں ناجائز طریقہ شامل نہ ہو جائے۔ مثلاً: ایسا ہدیہ جس میںرشوت کاشائبہ ہو یا ایسا سوال جس میں ذلت کا اندیشہ ہو ۔ ۳۔ حاجت کی مقدار سے زائد اپنے پاس نہ رہنے دے۔ جتنی مقدار کی واقعی ضرورت ہے وہ تومجبوری ہے، اس سے زیادہ کو فوراً خرچ کر دے۔ ۴۔ خرچ کے طریق کی نگرانی کرے کہیں بے محل خرچ نہ ہو جائے، ناجائز موقع پر خرچ نہ ہو جائے۔ ۵۔ مال کی آمد میں،خرچ میں اور بقدرِ ضرورت روکنے میں، ہر چیز میں نیت خالص رہے۔ محض اللہ کی رضا مقصود ہو جو رکھے یا استعمال میں لاوے وہ محض اس نیت سے کہ اس سے اللہ کی اطاعت میں قوت ہو۔جو ضرورت سے زائد ہو اس کو لغو وبے کار سمجھ کر جلد خرچ کر دے۔ اس کو ذلیل سمجھ کر خرچ کرے وقیع نہ سمجھے۔ ان شرائط کے ساتھ مال کا ہونا مضر نہیں ہے۔ اسی لیے حضرت علی ؓ کا ارشاد 
Flag Counter