ان آیات پر جو ذکر کی گئیں، انتہائی غور ہونا چاہیے اور زیاد ہ سے زیادہ اس کی کوشش ہونا چاہیے کہ صرف حق تعالیٰ شا نہٗ و تقدس پر ہی ہماری نگاہ ہو، اسی پر اعتماد ہو، اسی کی پاک ذات سے اپنا سوال ہو ، اسی سے بھیک مانگی جائے، اس کے علاوہ کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلے، بلکہ دل میں بھی کسی دوسرے کا خیال نہ آئے،بلکہ وہی پاک ذات اور صرف وہی پاک ذات اپنا سہارا ہو، وہی نفع اور نقصان کا مالک دل سے سمجھا جائے۔ زبان سے کہتے رہنا تو ہماری عام عادت ہے، لیکن اصل کارآمد یہ چیز ہے کہ ہمارے دل میں یہ بات اچھی طرح جم جائے کہ بغیر اس کے ارادہ کے کوئی حاکم، کوئی دولت مند، نہ کسی قسم کی مضرت پہنچا سکتا ہے نہ کسی قسم کا نفع پہنچا سکتا ہے۔ اور تھوڑا سا بھی غور کیا جائے تو بہت ہی کھلی ہوئی بات ہے کہ تمام دنیا کے قلوب صرف اسی کے قبضہ میں ہیں۔ ہم لاکھ کسی شخص کی منت سماجت کریں، مگر جب اس کا اپنا دل دوسرے کے قبضہ میں ہے تو جب تک دلوں کے مالک کا ارادہ نہ ہو ہماری منت سماجت سے اس کے دل پر کیا اثر ہوسکتا ہے؟ اور جب دلوں کا مالک کسی کام کو کرنا چاہے تو وہ بات خود بخود دوسروں کے دلوں میں پڑے گی۔ ہم لاکھ بے نیازی برتیں، اس کا دل اس کو خود مجبور کرے گا، باربار اس کے دل میں خیال آئے گا، بغیر تحریک کے خیال آئے گا۔ اس لیے اگر اپنی حاجات مانگنے کا محل ہے تو صرف وہی پاک ذات ہے۔ اگر عاجزی اور منت سماجت کرنے کی جگہ ہے تو اسی کا دربار ہے۔ ساری دنیا کے دل اس کے ارادہ کے تابع ہیں۔ ساری دنیا کے خزانے اس کی مِلک ہیں۔ یااللہ! محض اپنے فضل سے بلا استحقاق، بلکہ استحقاق کے خلاف، اس ناپاک کو بھی اس جوہر کا کوئی شمہ عطا فرما دے کہ تیری عطا کے واسطے استحقاق بھی شرط نہیں۔
خدا کی دَین کا موسیٰ سے پوچھیے احوال
کہ آگ لینے کو جائیں پیمبری مل جائے
اس کے بعد چند احادیث ان ہی مضامین کے متعلق مختصراً پیش کرتا ہوں جن کے متعلق اوپر کی تین آیات مستقل طور پر ذکر کی گئیں۔
احادیث
۱۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : مَنْ نَزَلَتْ بِہٖ فَاقَۃٌ فَأَنْزَلَھَا بِالنَّاسِ لَمْ تُسَدَّ فَاقَتُہٗ، وَمَنْ نَزَلَتْ بِہٖ فَاقَۃٌ فَأَنْزَلَھَا بِاللّٰہِ فَیُوْشِکَ اللّٰہُ لَہٗ بِرِزْقٍ عَاجِلٍ أَوْ آجِلٍ۔
رواہ الترمذي وھکذا في الدر المنثور بروایۃ أبي داود والترمذي والحاکم وقد صححہ، ولفظ أبي داود: بموت عاجل أو غنی عاجل۔ وفي المشکاۃ: بموت عاجل أو غنی آجل۔