چناںچہ متعدد روایات میں حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ اگر آدمی کے پاس دو جنگل سونے کے ہوں تووہ تیسرے کا طالب ہوتا ہے ۔ اور دنیا کا مشاہدہ اور تجربہ ہے کہ کوئی شخص کسی مقدار پربھی قناعت کرنے والا نہیں ہے،الا ماشاء اللہ۔ اسی وجہ سے قرآنِ پاک اور احادیث میںکثرت سے قناعت کی ترغیبات دی گئی ہیں کہ یہ جوع البقر کچھ کم ہو۔ اسی وجہ سے دنیاکی حقیقت اور اس کی زندگی اور ناپائیداری واضح کی گئی کہ اس سے محبت میں کمی ہوکہ جو چیز بہر حال بہت جلد زائل ہونے والی ہے اس سے آدمی کیا دل لگائے؟ دل لگانے کی چیز صرف وہی ہے جو ہمیشہ رہنے والی اور ہمیشہ کام آنے والی ہو۔ اور اسی وجہ سے صبر کی تاکید اور ترغیب کثرت سے واردہوئی کہ آدمی ا س کی کمی کو مطلقاً مصیبت نہ سمجھے، بلکہ اس میںبھی بسااوقات اللہ کی بڑی حکمتیں مضمر ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کاپاک ارشاد ہے:
{ وَلَوْ بَسَطَ اللّٰہُ الرِّزْقَ لِعِبَادہٖ} الٓایۃ (الشوری: ع ۳)
اگر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میںرزق کی زیادتی، وسعت فرما د ے تو وہ زمین میںسرکشی شروع کر دیں۔
چناںچہ تجربہ بھی یہی ہے کہ جہاں اس کی کثرت ہے وہیں حد سے زیادہ فسادات ہیں۔ اور چوںکہ اس کی فراوانی مقصود نہیں اور لوگوں کے دل اس کی طرف طبعاً متوجہ ہوتے ہیں، اسی وجہ سے سوال کرنے کی ممانعت، اس کی قباحت کثرت سے ذکر کی گئی کہ آدمی مال کی محبت اور کثرت کے فکر میں بلا مجبوری بھی سوال کرنے لگتا ہے کہ اس میں محنت تو کچھ کرنی نہیں پڑتی،زبان ہلانے سے کچھ نہ کچھ مل ہی جاتا ہے،جس سے مال میںاضافہ ہو جاتا ہے۔ انہی تین مضامین: قناعت،مصائب پر صبر اورسوال کی مذمت کے متعلق کچھ آیات اور احادیث اس جگہ لکھی جاتی ہیں۔
آیات
۱۔ زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّھَوَاتِ مِنَ النِّسَآئِ وَالْبَنِیْنَ وَالْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَۃِ مِنَ الذَّھَبِ وَالْفِضَّۃِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَۃِ وَالْاَنْعَامِ وَالْحَرْثِط ذٰلِکَ مَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ج وَاللّٰہُ عِنْدَہٗ حُسْنُ الْمَاٰبِo قُلْ اَؤُنَبِّئُکُمْ بِخَیْرٍ مِّنْ ذٰلِکُمْ لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّھِمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا وَاَزْوَاجٌ مُّطَھَّرَۃٌ وَّرِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰہِط وَاللّٰہُ بَصِیْرٌ بِالْعِبَادِ o اَلَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اِنَّنَا اٰمَنَّا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ o اَلصّٰبِرِیْنَ وَالصّٰدِقِیْنَ وَالْقٰنِتِیْنَ وَالْمُنْفِقِیْنَ وَالْمُسْتَغْفِرِیْنَ بِالْاَسْحَارِ o
(آل عمران :ع۲)