ساتویں فصل
میں زاہدوں اور اللہ کے راستہ میں خرچ کرنے والوں کے کچھ واقعات بھی نمونہ کے طور پر پیش کرنے ہیں کہ جن لوگوں نے دنیا اور آخرت کی حقیقت کو سمجھ لیا انھوں نے اس دھوکہ کے گھر سے کیسی بے رغبتی برتی اور آخرت کے لیے کیا کچھ جمع کر لیا۔ زہد اور سخاوت مفہوم اور صورتِ عمل کے لحاظ سے دو علیحدہ علیحدہ چیزیں ہیں، لیکن مآل کے اعتبار سے قریب قریب ہیں۔ اس لیے کہ زہد یعنی دنیا سے بے رغبتی، جس شخص میں ہوگی سخاوت اس کے لیے لازم ہے۔ جب اس کو اس کے رکھنے کی رغبت ہی نہیں تو موجود ہونے کی صورت میں وہ لا محالہ سخاوت ہی کرے گا۔ اسی طرح سے سخاوت وہی شخص کر سکتا ہے جس کو مال کی محبت نہ ہو اور جتنی زیادہ محبت مال کی ہوگی اتنا ہی بخل اس میں کرے گا۔ اس لیے اس فصل میں دونوں قسم کے واقعات کو ایک ہی جگہ جمع کر دیا اور اسی لیے اس رسالہ میںجو فضائلِ صدقات میں تھا، زہد کی روایات اور آیات بھی ذکر کی گئیں کہ دنیا سے بے رغبتی پیدا کرنا اللہ کے راستہ میں خرچ کرنے کا زینہ ہے۔ اور جب تک اس گندگی سے طبیعت کو محبت اور انس رہے گا کبھی بھی خرچ کرنے کو طبیعت نہ اُبھرے گی، اگر اپنا دل بھی کسی وقت چاہے گا تو طبیعت خرچ پر آمادہ نہ ہوگی۔ اسی کو حضورِ اقدسﷺ نے ایک بہترین مثال سے ظاہر فرمایا۔
ارشادِ عالی ہے کہ بخیل کی اور صدقہ کرنے والے کی (جس کی عادت کثرت سے صدقہ کرنے کی ہو) ایسی مثال ہے جیسا کہ دو آدمی ہوں، ان کے اوپر لوہے کی زِرہیں اس طرح لپٹی ہوئی ہوں کہ ان دونوں کے ہاتھ بھی زِر ہوں کے اندر ہی سینہ پر چپٹے ہوئے ہوں زِرہ سے باہر نکلے ہوئے نہ ہوں۔ پس صدقہ والا یعنی سخی شخص جو صدقہ کرنے کا عادی ہے، جب صدقہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ زِرہ خود بخود کھلتی چلی جاتی ہے (اور ہاتھ بے تکلف فوراً زِرہ سے باہر آ جاتا ہے) اور بخیل جب ارادہ کسی صدقہ کا کرتا ہے تو وہ زِرہ اور زیادہ سکڑ جاتی ہے، جس سے ہاتھ اپنی جگہ سے جنبش ہی نہیں کر سکتا۔ (مشکوٰۃ المصابیح)
مطلب یہ ہے کہ سخی جب خرچ کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا دل اس کے لیے فراخ ہو جاتا ہے، جس سے وہ بے تکلف خرچ کرتا ہے۔ اور بخیل اگر کہے سنے سے، یا کسی اور وجہ سے کسی وقت ارادہ بھی کرلیتا ہے، تو اندر سے کوئی چیز اس طرح اس کو پکڑ لیتی ہے جیساکہ لوہے کی زِرہ نے اس کے ہاتھ باندھ دیے ہوں کہ ہاتھوں کو زور سے زِرہ کے اندر سے نکالنا بھی چاہتا ہے، یعنی دل کو بار بار سمجھاتا ہے، مگر وہ مانتا ہی نہیں، ہاتھ اٹھتا ہی نہیں۔ بہت ہی صحیح اور سچی مثال ہے۔ روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ بخیل آدمی خرچ کرنا بھی چاہتا ہے تو ہاتھ نہیں اٹھتا۔ کہیں دس روپیہ خرچ کرنے کا موقعہ ہوگا تو وہ دس پیسے بھی مشکل سے نکالے گا۔
ا۔ حضرت ابوبکرصدیق ؓکی پوری زندگی کے واقعات اس کثرت سے اس چیز کی مثالیں ہیں کہ ان کا اِحاطہ بھی دشوار ہے۔ غزوئہ تبوک کے وقت جب کہ حضورِ اقدسﷺ نے چندہ کی تحریک فرمائی اور حضر ت ابوبکر صدیقؓکا اس وقت جو کچھ گھر میں رکھا تھا سب کچھ جمع کرکے حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کر دینا مشہور واقعہ ہے۔ اور جب حضورﷺ نے دریافت فرمایاکہ ابوبکر گھر میں کیا چھو ڑا؟ توآپؓ نے فرمایا: اللہ اور اس کا رسول (یعنی ان کی خوشنودی کا ذخیرہ) گھر میں موجود ہے۔ ’’حکایاتِ صحابہ‘‘ میں یہ قصہ مفصل ذکر کیا گیا ہے۔ اور اس نوع کے دوسرے حضرات کے متعدد واقعات ’’حکایاتِ صحابہ‘‘ میں بھی لکھ چکا ہوں، وہاں دیکھا جائے تو معلوم ہو کہ اِیثار، ہمدردی اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنا انھیں حضرات کا حصہ تھا کہ اس کا کچھ بھی شائبہ ہم لوگوں کو مل جائے تو نہ معلوم ہم اس کو کیا سمجھیں، لیکن ان حضرات کے یہاں یہ روزمرہ کے معمولی واقعات تھے۔ بالخصوص حضرت ابوبکر صدیقؓ کے متعلق اس سے بڑھ کر کیا وضاحت ہو سکتی ہے کہ خود حق تعالیٰ شانہٗ نے قرآنِ پاک میں تعریف کے موقع پر فرمایا:
{ وَسَیُجَنَّبُھَا الْاَتْقٰی} الآیۃ (اللیل)
اور اس (آگ سے ) وہ شخص دور رکھا جائے گا جو بڑا پرہیز گار ہے، جو اپنا مال اس غرض سے (اللہ کے راستہ میں) دیتا ہے کہ پاک ہو جائے اور بجز اپنے عالی شان پروردگار کی رضا جوئی کے (کوئی اور اس کی غرض نہیں ہے اور) کسی کا اس کے ذمہ