Deobandi Books

فضائل صدقات اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

95 - 607
نے فرمایا: نمک۔ میرے والد نے پھریہی سوال کیا تو حضور ﷺ نے فرمایا: جو بھلائی تُو (کسی کے ساتھ) کرسکے وہ تیرے لیے بہتر ہے۔
فائدہ: اگر پانی سے مراد کنوئیں سے پانی لینا ہو اور نمک سے مراد اس کے معدن سے نمک لینا ہو تب تو شرعی حیثیت سے بھی کسی کو ان چیزوں سے روکنے کا حق نہیں ہے، لیکن اگر اپنا مملوک پانی اور مملوک نمک ہے تو حضورِ اقدسﷺ کی غرض اس پر تنبیہ فرمانا ہے کہ ایسی معمولی چیزوں کو سائل کو اِنکار کرنا ہرگزنہ چاہیے جس میں دینے والے کو زیادہ نقصان نہیں اور مانگنے والے کی بڑی اِحتیاج پوری ہوتی ہے، بشرطے کہ دینے والے کی اپنی حاجت بھی اسی درجہ کی نہ ہو، لیکن عام طور پر چوںکہ گھروں میں یہ چیزیں اکثر موجود ہوتی ہیں اور اپنی کوئی وقتی ضرورت ان سے ایسی وابستہ نہیں ہوتی۔ اگر کسی شخص کی ہانڈی پھیکی ہے، ذرا سے نمک میں اس کا سارا کھانا درست ہو جاتا ہے اور تمہارا کوئی ایسا نقصان اس میں نہیں ہوتا۔ ایسے ہی پانی کا حال ہے۔ حضرت عائشہؓفرماتی ہیں: حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تین چیزوں کا روکنا جائز نہیں: پانی، نمک، آگ۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! پانی کو توہم سمجھ گئے، (کہ واقعی بہت مجبوری کی چیز ہے) لیکن نمک اور آگ میں کیا بات ہے؟ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اے حُمیرا! جب کوئی شخص کسی کو آگ دیتا ہے تو گویا اس نے وہ ساری چیز صدقہ کی جو آگ پر پکی اور جس نے نمک دیا اس نے گویا وہ ساری چیز صدقہ کی جو نمک کی وجہ سے لذیذ ہوگئی۔ (مشکاۃ المصابیح) گویا ان دونوں میں معمولی خرچ سے دوسرے کا بہت زیادہ نفع ہے۔
حضورِ اقدسﷺ نے حدیث ِبالا میں مثال کے طور پر دو چیزوں کا ذکر فرما کر پھر ایک ضابطہ ارشاد فرما دیا کہ جو بھلائی کسی کے ساتھ کرسکتے ہو وہ تمہارے لیے بہتر ہے۔  ع
بھلا کر جو اپنا بھلا چاہتا ہے
حقیقت یہی ہے کہ آدمی جو احسان کسی قسم کا بھی کسی کے ساتھ کرتا ہے، وہ صورت میں دوسرے کے ساتھ احسان ہے حقیقت میں وہ اپنے ہی ساتھ احسان ہے۔ اللہ کے پاک ارشاد میں بسلسلۂ آیات نمبر (۲۰) پرگزر چکا ہے کہ جو کچھ تم اللہ کے راستے میں خرچ کروگے اللہ اس کا بدل عطا فرمائے گا۔ اور بسلسلۂ احادیث نمبر (۲ ) پر گزر چکا ہے کہ دو فرشتے روزانہ اس کی دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ! خرچ کرنے والے کو بدل عطا فرما اور روکنے والے کو بربادی عطا کر۔ ایسی حالت میں جو احسان بھی کوئی شخص کسی کے ساتھ کرتا ہے وہ اپنے مال کو بربادی سے بچا کر اس کے بدل کا اللہ کے خزانہ سے اپنے لیے استحقاق قائم کرتا ہے۔ اور غور کی نگاہ اگر میسر ہو تو حقیقت میں دوسروں پر ذرا بھی احسان نہیں، بلکہ ایسا ہے جیسا کہ تمہارے مکان کو لوٹ سے بچادیا ہو۔ اس لحاظ سے اس کا تم پر احسان ہے نہ کہ تمہارا اس پر۔
Flag Counter