Deobandi Books

فضائل صدقات اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

9 - 607
بیت المقدس کی بجائے کعبہ کو قبلہ قرار دینے) پر اعتراض کیا تو حق تعالیٰ شا نہٗ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ نیکی اللہ کی اطاعت میں ہے، بغیر اس کی اطاعت کے مشرق و مغرب کی توجہ کوئی چیز نہیں ہے۔ (احکام القرآن)
 ’’اللہ کی محبت میں مال دیتا ہو‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اِن چیزوں میں اللہ  کی محبت اور خوشنودی کی وجہ سے خرچ کرے۔ نام و نمود، اپنی شہرت عزت کی وجہ سے خرچ نہ کرے کہ اس ارادہ سے خرچ کرنا نیکی برباد گناہ لازم کا مصداق ہے، اپنا مال بھی خرچ کیا اور اللہ  کے یہاں بجائے ثواب کے گناہ ہوا۔
حضورِ اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ حق تعالیٰ شا نہٗ تمہاری صورتوں اور تمہارے مالوں کی طرف نہیں دیکھتے، (کہ کتنا خرچ کیا) بلکہ تمہارے اعمال اور تمہارے دلوں کی طرف دیکھتے ہیں۔ (کہ کس نیت اور کس ارادہ سے خرچ کیا) (مشکوٰۃ المصابیح) 
ایک اور حدیث میں حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ مجھے تم پر بہت زیادہ خوف شرکِ اصغر کا ہے۔ صحابہ ? نے عرض کیا: یا رسول اللہ! شرکِ اصغر کیا ہے؟ حضور ﷺنے فرمایا: دکھلاوے کے لیے عمل کرنا۔ احادیث میں بہت کثرت سے دکھاوے کے لیے خرچ کرنے پر تنبیہ کی گئی ہے جو آیندہ آئے گی۔ 
یہ ترجمہ اس صورت میں ہے کہ آیتِ شریفہ میں اللہ کی محبت میںدینا مراد ہو۔ بعض علما نے خرچ کرنے کی محبت کا ترجمہ کیا ہے: یعنی جو خرچ کیا ہے اس پر مسرور ہو۔ یہ نہ ہو کہ اُس وقت تو خرچ کردیا، پھر اس پر قلق ہو رہا ہے کہ میں نے کیوں خرچ کردیا؟ کیسی بے وقوفی ہوئی روپیہ کم ہوگیا وغیرہ وغیرہ۔ (احکام القر آن) 
اور اکثر علما نے مال کی محبت کا ترجمہ کیا ہے: یعنی باوجود مال کی محبت کے اِن مواقع میں خرچ کرے۔ ایک حدیث میں ہے: کسی شخص نے عرض کیا: یارسول اللہ! مال کی محبت کا کیا مطلب ہے، مال سے تو ہر ایک کو محبت ہوتی ہے؟ حضورﷺ نے فرمایا کہ جب تو مال خرچ کرے تو اس وقت تیرا دِل تیری اپنی ضرورتیں جتائے اور اپنی حاجت کا ڈر دِل میں پیدا ہو کہ عمر ابھی بہت باقی ہے مجھے احتیاج نہ ہو جائے۔
ایک حدیث میں ہے حضورِ اقدسﷺ نے ارشاد فرمایا: بہترین صدقہ یہ ہے کہ تو ایسے وقت میں خرچ کرے جب تندرست ہو، اپنی زندگی اور بہت زمانہ تک دنیا میں رہنے کی امید ہو۔ ایسا نہ کر کہ صدقہ کرنے کو ٹالتا رہے یہاں تک کہ جب دم نکلنے لگے اور موت کا وقت قریب آجائے تو کہنے لگے کہ اتنا فلاں کو دیا جائے اور اتنا فلانی جگہ دیا جائے کہ اب تو وہ فلاں کا ہوگیا۔(دُرِّ منثور)
 مطلب یہ ہے کہ جب اپنے سے مایوسی ہوگئی اور اپنی ضرورت اور حاجت کا ڈر نہ رہا تو آپ نے کہنا شروع کردیا کہ اتنا فلاں مسجد میںاتنا فلاں مدرسہ میں۔ حالاںکہ اب وہ گویا وارث کا مال بن گیا۔ اب حلوائی کی دکان پر نانا جی کی فاتحہ ہے۔ جب 
Flag Counter