Deobandi Books

فضائل صدقات اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

86 - 607
اور ایک حضرت زبیرؓہی کیا ان سب حضرات کا ایک ہی سا حال تھا۔ ان حضرات کے یہاں مال رکھنے کی چیز تھی ہی نہیں۔ حضرت عمرؓ نے ایک مرتبہ ایک تھیلی میں چار سو دینار (اشرفیاں) بھریں اور غلام سے فرمایا کہ یہ ابو عبیدہ ؓ کو دے آئو کہ اپنی ضروریات میں خرچ کرلیں۔ اور غلام سے یہ بھی فرما دیا کہ ان کو دینے کے بعد وہیں کسی کام میں مشغول ہو جانا تاکہ دیکھو وہ ان کو کیا کرتے ہیں۔ وہ غلا م لے گئے اور جاکر ان کی خدمت میں پیش کردیے۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے حضر ت عمرؓکو بڑی دعائیںدیں، اور اپنی باندی کو بلایا، اور اس کے ہاتھ سے سات فلاں کو اور پانچ فلاں کو، اتنے اِس کو اتنے اُس کو، اسی مجلس میں سب ختم کردیے۔ غلام نے واپس آکر حضرت عمرؓکو قصہ سنایا۔ پھر حضرت عمرؓ نے اتنی ہی مقدار ان کے ہاتھ حضرت معاذؓکو بھیجی اور اس وقت بھی یہی کہا کہ وہاں کسی کام میں لگ جانا تاکہ یہ دیکھو کہ وہ کیا کرتے ہیں۔ انھوں نے بھی باندی کے ہاتھ اسی وقت فلاں گھر اتنے فلاں گھر اتنے، بھیجنے شروع کر دیے۔ اتنے میںحضرت معاذؓکی بیوی آئیں کہ ہم بھی تو مسکین اور ضرورت مند ہیں کچھ ہمیں بھی دے دو۔ حضرت معاذؓ نے وہ تھیلی ان کے پاس پھینک دی۔ اس میں دو باقی رہ گئی تھیں، باقی سب تقسیم ہوچکی تھیں۔ غلام نے آکر حضرت عمر ؓ کو قصہ سنایا۔ حضرت عمرؓ بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ یہ سب بھائی بھائی ہیں۔ یعنی سب ایک ہی نمونہ کے ہیں ۔(الترغیب والترہیب)
۱۳۔ عَنْ أَبِيْ سَعِیْدٍ ؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : أَیـُّمَا مُسْلِمٍ کَسَا مُسْلِمًا ثَوْبًا عَلی عُرًی کَسَاہُ اللّٰہُ مِنْ خُضْرِ الْجَنَّۃِ۔ وَأَیُّمَا مُسْلِمٍ أَطْعَمَ مُسْلِمًا عَلٰی جُوْعٍ أَطْعَمَہُ اللّٰہُ مِنْ ثِمَارِ الْجَنَّۃِ۔ وَأَیُّمَا مُسْلِمٍ سَقٰی مُسْلِمًا عَلٰی ظَمَأً سَقَاہُ اللّٰہُ مِنَ الرَّحِیْقِ الْمَخْتُوْمِ۔
رواہ أبوداود والترمذي، کذا في مشکاۃ المصابیح۔


حضورِ اقدسﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص کسی مسلمان کو ننگے پن کی حالت میں کپڑا پہنائے گا حق تعالیٰ شا نہٗ اس کو جنت کے سبز لباس پہنائے گا۔ اور جو شخص کسی مسلمان کو بھوک کی حالت میں کچھ کھلائے گا حق تعالیٰ شا نہٗ اس کو جنت کے پھل کھلائے گا۔ اور جو شخص کسی مسلمان کو پیاس کی حالت میں پانی پلائے گا اللہ  اس کوایسی شرابِ جنت پلائے گا جس پر مہر لگی ہوئی ہوگی۔
فائدہ: ’’مہر لگی ہوئی شراب سے ‘‘ اس پاک شراب کی طرف اشارہ ہے جو قرآنِ پاک میں نیک لوگوں کے لیے تجویز کی گئی ہے۔ چناںچہ اللہ کا پاک ارشاد سورۂ تطفیف میں ہے:
{اِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِی نَعِیْمٍo عَلٰی الْاَرَآئِکِ یَنْظُرُوْنَ o تَعْرِفُ فِیْ وُجُوْھِھِمْ نَضْرَۃَ النَّعِیْمِ o یُسْقَوْنَ مِنْ رَّحِیْقٍ مَّخْتُوْمٍ o خِتٰمُہٗ مِسْکٌط وَفِیْ ذٰلِکَ فَلْیَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُوْنَ o}
Flag Counter