Deobandi Books

فضائل صدقات اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

85 - 607
سے روک دیا جاتا ہے۔
 اے زبیر ! خود بھی کھائو، دوسروں کو بھی کھلائو اور باندھ کر نہ رکھو کہ تم پر باندھ کر رکھ دیا جائے، اور شمار نہ کرو کہ تم پربھی شمار کیا جائے، تنگی نہ کرو کہ تم پربھی تنگی کر دی جائے، مشقت میں (لوگوں کو) نہ ڈالو کہ تم پر مشقت ڈال دی جائے۔ اے زبیر! اللہ خرچ کرنے کو پسند کرتا ہے اور تنگی کو ناپسند کرتا ہے۔ سخاوت (اللہ کے ساتھ) یقین سے ہوتی ہے اور بخل شک سے پیدا ہوتا ہے۔ جو شخص (اللہ کے ساتھ کامل) یقین رکھتا ہے وہ جہنم میں داخل نہ ہوگا اور جو شک کرتا ہے وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔ زبیر! اللہ  سخاوت کو پسند کرتا ہے چاہے کھجور کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو، اور اللہ تعالیٰ بہادری کو پسند کرتا ہے چاہے سانپ اور بچھو ہی کے مارنے میں کیوں نہ ہو۔ اے زبیر! اللہ زلزلوں (اور حوادث) کے وقت صبر کو محبوب رکھتا ہے، اور شہوتوں کے غلبہ کے وقت ایسے یقین کو پسند کرتا ہے جو سب جگہ سرایت کر جائے (اور شہوت کے پورا کرنے سے روک دے)، اور (دین میں) شبہات پیدا ہونے کے وقت عقلِ کامل کومحبوب رکھتا ہے، اور حرام اور گندی چیزوں کے سامنے آنے پر تقویٰ کو پسند کرتا ہے۔ اے زبیر! بھائیوں کی تعظیم کرو اور نیک لوگوں کی عظمت بڑھائو اور اچھے آدمیوں کا اِعزاز کرو۔ پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کرو اور فاسق لوگوں کے ساتھ راستہ بھی نہ چلو۔ جو ان چیزوں کا اہتمام کرے گا جنت میں بغیر عذاب کے اور بغیر حساب کے داخل ہوگا۔ یہ اللہ کی نصیحت ہے مجھ کو اور میری نصیحت ہے تم کو۔
آیات کے ذیل میں نمبر (۲۰) پر بھی اس قصہ کی طرف مختصر اشارہ گزر چکا ہے اور اس کے متعلق کلام بھی۔ حضورﷺ کے اس تفصیلی ارشاد کے بعد حضرت زبیرؓ کی طبیعت کا جو اندازہوگا وہ ظاہر ہے۔ ایسی حالت میں حضرت اسماءؓ کو ان کے مال میں سے بے دریغ خرچ کرنے کو اگر فرمایا ہو تو بے محل نہیں ہے۔ حضرت زبیرؓ حضورِ اقدسﷺ کے پھوپھی زاد بھائی بھی ہیں۔ اگر قرابت والوں سے تعلقات قوی ہوں تو اس قسم کے تصرفات تعلقات کی قوت اور زیادتی کا سبب ہوا کرتے ہیں، جن کا مشاہدہ اور تجربہ اس گئے گزرے زمانہ میں بھی ہوتا رہتا ہے۔ اس سب کے علاوہ خود حضرت زبیرؓکی فیاضی کا کیا پوچھنا۔ صاحب ’’اِصابہ‘‘ نے لکھا ہے کہ ان کے ایک ہزار غلام تھے جو ان کو خِراج ادا کرتے تھے، لیکن اس میں سے ذرا سا بھی گھر میں نہ جاتا تھا۔ یعنی سب کا سب صدقہ ہی ہوتا تھا۔ اسی فیاضی کا یہ ثمرہ تھا کہ انتقال کے وقت بائیس لاکھ دِرَم قرضہ تھا جس کا مفصل قصہ ’’بخاری شریف‘‘ میں مذکور ہے۔ اور قرضہ کی صورت کیا تھی؟ یہ کہ امانت دار بہت تھے، محتاط بہت تھے۔ لوگ اپنی امانتیں رکھواتے اور وہ یہ اِرشاد فرماتے کہ: امانت رکھنے کی جگہ تو میرے پاس ہے نہیں مجھے قرض دے دو، جب ضرورت ہولے لینا۔ اس کو بجائے امانت کے قرض لیتے اور خرچ کر دیتے۔
Flag Counter