Deobandi Books

فضائل صدقات اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

83 - 607
متفق علیہ، کذا في مشکاۃ المصابیح۔


حضرت اسماءؓ فرماتی ہیں کہ حضورﷺ نے ان سے ارشاد فرمایا کہ (خوب) خرچ کیا کر اور شمار نہ کر (اگر ایسا کرے گی) تو اللہ  بھی تجھ پر شمار کرے گا۔ اور محفوظ کرکے نہ رکھ (اگر ایسا کرے گی) تو اللہ  تجھ پر محفوظ کرکے رکھے گا۔ 
(یعنی کم عطا کرے گا) عطا کر جتنا بھی تجھ سے ہوسکے۔
فائدہ: یہ حضرت اسماءؓ حضرت عائشہؓ کی ہمشیرہ ہیں۔ حضورﷺ نے اس پاک حدیث میں کئی نوع سے خرچ کے زیادہ کرنے کی ترغیب ارشاد فرمائی۔ اوّل تو خوب خرچ کرنے کا صاف صاف حکم ہی فرمایا، لیکن یہ ظاہر ہے کہ خرچ وہی پسندیدہ ہے جو شریعتِ مطہرہ کے موافق اللہ کی رضا کی چیزوں میں کیا جائے۔ شریعت کے خلاف خرچ کرنا موجبِ ثواب ِنہیں وبال ہے۔
اس کے بعد حضورِ اقدسﷺ نے شمار کرنے کی ممانعت فرمائی جو پہلے ہی مضمون کی تاکید ہے۔ اس کے علما نے دو مطلب ارشاد فرمائے ہیں۔ ایک یہ کہ گننے سے مراد گِن گِن کر رکھنا اور جمع کرنا ہے، اور مطلب یہ ہے کہ اگر تو گِن گِن کر رکھے گی تو اللہ کی طرف سے عطا میں بھی تنگی کی جائے گی۔ جیسا کرنا ویسا بھرنا۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ فقرا کو دینے میں شمار نہ کر، تاکہ اللہ کی طرف سے بدلہ اور ثواب بھی بے حساب ملے۔ اس کے بعد پھر اس مضمون کو اور زیادہ مؤکد فرمایا کہ محفوظ کرکے نہ رکھ اگر تو اپنے مال کو اللہ کے راستہ میں خرچ کرنے کی بجائے محفوظ کرکے رکھے گی، تو اللہ  بھی اپنی عطا اور احسان و کرم کی زیادتی کو تجھ سے روک لے گا۔ اس کے بعد اس کو اور زیادہ مؤکد کرنے کو ارشاد فرمایا کہ جتنا بھی تجھ سے ہوسکے خرچ کیا کر۔ یعنی کم و زیادہ کی پروا نہ کیا کر۔ نہ یہ خیال کر کہ اتنی بڑی مقدار مناسب نہیں، نہ یہ سوچاکر کہ اتنی ذراسی چیز کیا دوں، جو اپنی طاقت او ر قدرت میں ہو اس کے خرچ کرنے میں دریغ نہ کیا کر۔
دوسری احادیث میں کثرت سے یہ مضمون وارد ہوا ہے کہ جہنم کی آگ سے صدقہ کے ساتھ اپنا بچائو اور اپنی حفاظت کرو چاہے کھجور کا ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو کہ وہ بھی جہنم کی آگ سے حفاظت کا سبب ہے۔ ’’بخاری شریف‘‘ کی ایک اور حدیث میں ہے کہ حضرت اسماءؓنے حضورِ اقدسﷺ سے دریافت کیا کہ حضور! میرے پاس اپنی تو کوئی چیز اب ہے نہیں، صرف وہی ہوتا ہے جو (میرے خاوند) حضرت زبیرؓ دے دیں۔ کیا اس میں سے صدقہ کر دیا کروں؟ حضورﷺنے فرمایا کہ صدقہ کیا کر اور برتن میں محفوظ کرکے نہ رکھا کر، (اگر ایسا کرے گی) تو اللہ بھی تجھ سے (اپنی عطا کو) محفوظ فرمالے گا۔ اس حدیث میں اگر حضرت زبیرؓ کے دینے سے مراد ان کاحضرت اسماءؓکو مالک بنا دینا ہے تب تو یہ مال حضرت اسماءؓ کا ہوگیا، 
Flag Counter