Deobandi Books

فضائل صدقات اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

79 - 607
ہے۔ اور منہ سے پکڑے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ جنگل کے کنوئوں میں عام طور سے کچھ اینٹیں وغیرہ اس طرح باہر کو نکال دیتے ہیں کہ جن کی مدد سے آدمی اگر اس کے پاس ڈول رسی نہ ہو تو نیچے اتر سکتا ہے، لیکن اترنے چڑھنے کے لیے ہاتھوں سے مدد لینے کی ضرورت ضرور پیش آیا کرتی ہے اس لیے موزہ کو منہ سے سنبھالنا پڑا۔ رسالہ کے ختم پر حکایات کے ذیل میں نمبر (۴۷) پر ایک ظالم کا قصہ بھی ایسا ہی ہے جس نے ایک خارشی کتے کو پناہ دی تھی، اس کی وہی بات پسند آگئی ۔ ان دونوں حدیثوں میں کتے جیسے ذلیل جانور پر احسان کرنے کا جب یہ بدلہ ہے تو آدمی جو اشرفُ المخلوقات ہے اس پر احسان کرنے کا کیا کچھ بدلہ ہوگا؟
بعض علما نے لکھا ہے کہ ایسے جانور جن کو ما رنا مستحب ہے جیسے کہ سانپ بچھو وغیرہ، اس سے مستثنیٰ ہیں، لیکن دوسرے اہلِ علم حضرات فرماتے ہیں کہ ان کے مارنے کے حکم کا یہ مطلب نہیں کہ اگر ان کا پیاسا ہونا معلوم ہو جائے تو ان کو پانی نہ پلایا جائے۔ اس لیے کہ ہم مسلمانوں کو یہ حکم ہے کہ جس کو کسی وجہ سے قتل کیا جائے اس میں بہتری کی رعایت رکھی جائے۔ اسی وجہ سے جس کو قتل کرنا ضروری ہے اس کے بھی ہاتھ پائوں وغیرہ کاٹنے کی ممانعت ہے۔ (فتح الباری)
ان دونوں حدیثوں سے اور ان کے علاوہ اور بھی بہت سی احادیث سے ایک لطیف چیز یہ بھی معلوم ہوئی کہ حق تعالیٰ شا نہٗ کو کسی شخص کا کوئی ایک عمل بھی اگر پسند آجائے تو اس کی برکت سے عمر بھر کے گناہ بخش دیتے ہیں۔ اس کے لطف و کرم کے مقابلہ میں یہ کوئی بھی چیز نہیں ہے۔ البتہ قبول ہو جانے اور پسند آجانے کی بات ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ ہرگناہ گار کے سارے گناہ پانی پلانے سے یا کسی ایک نیکی سے بخش دیے جائیں۔ ہاں کوئی چیز کسی کی قبول ہوجائے تو کوئی مانع نہیں۔ اس لیے آدمی کو نہایت اخلاص سے کوشش کرتے رہنا چاہیے اللہ جانے کو ن ساعمل وہاں پسند آجائے پھر بیڑا پار ہے۔
بڑی چیز اخلاص ہے۔ یعنی خالص اللہ کے لیے کوئی کام کرنا، جس میں دنیا کی کوئی غرض شامل نہ ہو۔ نہ اس سے دنیا کمانا مقصود ہو،نہ شہرت وجاہت مطلوب ہو۔ ان میں سے کوئی چیز شامل ہو جاتی ہے تو وہ سارا کیا کرایا برباد کر دیتی ہے۔ اور محض اس کے لیے کوئی کام ہو تو معمولی سے معمولی کام بھی پہاڑوں سے وزن میں بڑھ جاتا ہے۔ حضرت لقمان  ؑ نے اپنے صاحب زادہ کو نصیحت کی کہ جب تجھ سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو صدقہ کیا کر۔ (اِحیاء العلوم) اس لیے کہ یہ گناہ کو دھوتا ہے اور اللہ کے غصہ کو دور کرتا ہے۔
۱۱۔ عَنْ عَلِیٍّ ؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : إِنَّ فِيْ الْجَنَّۃِ لَغُرَفًا یُرَی ظُھُوْرُھَا مِنْ بُطُوْنِھَا وَبُطُوْنُھَا مِنْ ظُھُوْرِھَا۔ قَالُوْا: لِمَنْ ھِيَ؟ قَالَ: لِمَنْ أَطَابَ الْکَلاَمَ وَأَطْعَمَ الطَّعَامَ وَأَدَامَ الصِّیَامَ وَصَلَّی بِاللَّیْلِ وَالنَّاسُ نِیَامٌ ۔ 
أخرجہ ابن أبي شیبۃ والترمذي وغیرہما کذا في الدر۔

Flag Counter