Deobandi Books

فضائل صدقات اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

77 - 607
بتایا جو اس نے بادل میں سے سنا تھا۔ پھر باغ والے نے اس سے پوچھا کہ تم نے میرا نام کیوں دریافت کیا؟ اس نے کہا: میں  نے اس بادل میں جس کا پانی یہ آ رہا ہے یہ آواز سنی تھی کہ فلاں شخص کے باغ کو پانی دے اور تمہارا نام بادل میں سنا تھا، تم اس باغ میں کیا کام  
وَآکُلُ أَنَا وَعِیَالِیْ ثُلُثًا وَأَرُدُّ فِیْھَا ثُلُثَہٗ۔    رواہ مسلم، مشکاۃ المصابیح۔


ایسا کرتے ہو؟ (جس کی وجہ سے بادل کو یہ حکم ہوا کہ اس کے باغ کو پانی دو) باغ 
والے نے کہا کہ جب تم نے یہ سب کہا تو مجھے بھی کہنا پڑا۔میں اس کے اندر جو کچھ پیدا ہوتا ہے اس کو دیکھتا ہوں اور( اس کے تین حصے کرتا ہوں )ایک حصہ یعنی تہائی تو فوراً اللہ کے راستہ میں صدقہ کر دیتا ہوں، اور ایک تہائی میں اور میرے اہل و عیال کھاتے ہیں، اور ایک تہائی اسی باغ کی ضروریات میں لگا دیتا ہوں۔
فائدہ: کس قدر برکت ہے اللہ کے نام پر صرف ایک تہائی آمدنی کے خرچ کرنے کی کہ پردئہ غیب سے ان کے باغ کی پرورش کے سامان ہوتے ہیں، اور کھلی مثال ہے اس مضمون کی جو پہلی حدیث میں گزرا کہ’’ صدقہ کرنے سے مال کم نہیں ہوتا‘‘ کہ باغ کی ایک تہائی پیداوار صدقہ کی تھی اور تمام باغ کے دوبارہ پھل لانے کے انتظامات ہو رہے ہیں۔
اس حدیث شریف سے ایک بہترین سبق اور بھی حاصل ہوتا ہے، وہ یہ کہ آدمی کواپنی آمدنی کا کچھ حصہ اللہ کے راستہ میں خرچ کرنے کے لیے متعین کرلینا زیادہ مفید ہے۔ اور تجربہ بھی یہی ہے کہ اگر آدمی یہ طے کرلے کہ اتنی مقدار اللہ کے راستہ میں خرچ کرنی ہے تو پھر خیر کے مصارف اور خرچ کرنے کے مواقع بہت ملتے رہتے ہیں۔ اور اگر یہ خیال کرے کہ جب کوئی کارِخیر ہوگا اس وقت دیکھا جائے گا، تو اوّل تو کارِ خیر ایسی حالت میں بہت کم سمجھ میں آتے ہیں، اور ہر موقع پر نفس اور شیطان یہی خیال دل میں ڈالتے ہیں کہ یہ کوئی ضروری خرچ تو ہے نہیں۔ اور اگر کوئی بہت ہی اہم کام ایسا بھی ہو جس میں خرچ کرنا کھلی خیر ہے، تو اکثر موجو د نہیں ہوتا۔ اور موجودگی میں بھی اپنی ضروریات سامنے آکر کم سے کم خرچ کرنے کو دل چاہتا ہے۔ اور اگر مہینہ کے شروع ہی میں تنخواہ ملنے پر ایک حصہ علیحدہ کرکے رکھ دیا جائے یا روزانہ تجارت کی آمدنی میں سے صندوقچی کا ایک حصہ علیحدہ کرکے اس میں متعینہ مقدار ڈال دی جایا کرے کہ یہ صرف اللہ کے راستہ میں خرچ کرنا ہے، تو پھر خرچ کے وقت دل تنگی نہیں ہوتی کہ اس کو تو بہرحال وہ مقدار خرچ کرنا ہی ہے۔ بڑا مجرب نسخہ ہے، جس کا دل چاہے کچھ روز تجربہ کرکے دیکھ لے۔
ابووائل  ؒ کہتے ہیں کہ مجھ کو حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے قریظہ کی طرف بھیجا اور یہ ارشاد فرمایا کہ میں وہاں جاکر وہی عمل 
Flag Counter