Deobandi Books

فضائل صدقات اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

70 - 607
تھا) پھر تیسری مرتبہ ارادہ کیا کہ آج رات کو ضرور صدقہ کروں گا۔ چناںچہ 
رات کو صدقہ لے کر گیا اور اس کو ایک شخص کو دے دیا جو مال دار تھا۔ صبح کو چرچا ہوا کہ رات ایک مال دار کو صدقہ دیا گیا۔ اس صدقہ دینے والے نے کہا: یا اللہ! تیرے ہی لیے تعریف ہے چور پر بھی، زنا کرنے والی عورت پر بھی اور غنی پر بھی۔ رات کو خواب میں دیکھا کہ (تیرا صدقہ قبول ہوگیا) تیرا صدقہ چور پر اس لیے کرایا گیا کہ شاید وہ اپنی چوری سے توبہ کرلے۔ اور زانیہ پر اس لیے کہ وہ شاید زنا سے توبہ کرلے۔ (جب وہ یہ دیکھے گی کہ بغیر منہ کالا کرائے بھی اللہ عطا فرماتے ہیں تو اس کو غیرت آئے گی) اور غنی پر اس لیے تاکہ اس کو عبرت حاصل ہو (کہ اللہ کے بندے کس طرح چھپ کر صدقہ کرتے ہیں، اس کی وجہ سے) شاید وہ بھی اس مال میں سے جو اس کو اللہ نے عطا فرمایا ہے صدقہ کرنے لگے۔
فائدہ: ایک حدیث میںیہ قصہ اور طرح سے ذکر کیا گیا ہے۔ ممکن ہے کہ وہ دوسرا قصہ ہو کہ اس قسم کے متعدد واقعات میں کوئی اشکال نہیں۔ اور اگر وہ یہی قصہ ہے تو اس سے اس قصہ کی کچھ وضاحت ہوتی ہے۔ طائوس ؒ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے منت مانی کہ جو شخص سب سے پہلے اس آبادی میںنظر پڑے گا اس پر صدقہ کروں گا۔ اتفاق سے سب سے پہلے ایک عورت ملی اس کو صدقہ کا مال دے دیا۔ لوگوں نے کہا کہ یہ تو بڑی خبیث عورت ہے۔ اس صدقہ کرنے والے نے اس کے بعد جو شخص سب سے پہلے نظر پڑا اس کو مال دیا۔ لوگوں نے کہا کہ یہ تو بدترین شخص ہے۔ اس شخص نے اس کے بعد جو سب سے پہلے نظر پڑا اس پر صدقہ کیا۔ لوگوں نے کہا کہ یہ تو بڑا مال دار شخص ہے۔ صدقہ کرنے والے کو بڑا رنج ہوا تو اس نے خواب میں دیکھا کہ اللہ نے تیرے تینوں صدقے قبول کرلیے۔ وہ عورت فاحشہ عورت تھی، لیکن محض ناداری کی وجہ سے اس نے یہ فعل اختیار کر رکھا تھا۔ جب سے تو نے اس کو مال دیا ہے اس نے یہ برا کام چھوڑ دیا۔ دوسرا شخص چور تھا اور وہ بھی تنگ دستی کی وجہ سے چوری کرتا تھا۔ تیرے مال دینے پر اس نے چوری سے علیحدگی اختیار کرلی۔ تیسرا شخص مال دار ہے اور کبھی صدقہ نہ کرتا تھا۔ تیرے صدقہ کرنے سے اس کو عبرت ہوئی کہ میں اس سے زیادہ مال دار ہوں اس لیے زیادہ صدقہ کرنے کا مستحق ہوں، اب اس کو صدقہ کی توفیق ہوگئی۔ (کنز العمال)
اس حدیث شریف سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اگر صدقہ کرنے والے کی نیت اخلاص کی ہو اور اس کے باوجود وہ بے محل پہنچ جائے تو اس میں بھی اللہ کی کوئی حکمت ہوتی ہے، اس سے رنجیدہ نہ ہونا چاہیے۔ آدمی کا اپنا کام یہ ہے کہ اپنی نیت اخلاص کی رکھے کہ اصل چیز اپنا ہی ارادہ اور فعل ہے۔ اور ان صدقہ کرنے والے بزرگ کی فضیلت بھی ظاہر ہوئی کہ باوجود اپنی کوشش کے جب صدقہ بے جگہ صرف ہوگیا، تو اس کی وجہ سے بددل ہو کر صدقہ کرنے کاارادہ ترک نہیں کیا، 
Flag Counter