Deobandi Books

فضائل صدقات اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

68 - 607
شخص جب خوب پیٹ بھرلے تو بچے ہوئے کھانے کا ہدیہ تحفہ کسی کے پاس لے کر جائے۔ (مشکاۃ المصابیح) 
حضور ِاقدسﷺ نے مختلف مثالوں سے اس پر تنبیہ فرمائی کہ اصل صدقہ کا وقت تندرستی اور صحت کا ہے کہ اپنے نفس سے اصل مقابلہ اسی وقت ہے، لیکن ان سب کا مطلب یہ نہیں کہ مرتے وقت کا صدقہ یا وصیت بے کار ہے۔ بہرحال ثواب اس کا بھی ہے، ذخیرئہ آخرت وہ بھی بنتا ہے۔ البتہ اتنا ثواب نہیں ہوتا جتنا اپنی ضرورتوں اور راحتوں کے مقابلے میں صدقہ کرنے کا ثواب ہے۔ حق تعالیٰ شا نہٗ کا ارشاد ہے: 
{کُتِبَ عَلَیْکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَکَ خَیرَ نالْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِیْنَ} ( البقرۃ : ع ۲۲) 
تم پر فرض کیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت آنے لگے، اگر وہ مال چھوڑے تو والدین اور دوسرے رشتہ داروں کے لیے کچھ وصیت کر جائے جو معروف طریقہ پر ہو۔ جن کو خداکا خوف ہے ان کے ذمہ یہ ضروری چیز ہے۔‘‘ 
یہ حکم جو اس آیتِ شریفہ میں ذکر کیا گیا ابتدائے اسلام کا ہے۔ اس وقت ماں باپ کے لیے بھی وصیت فرض تھی۔ اس کے بعد جب میراث کا حکم نازل ہوا تو والدین اور جن رشتہ داروں کا حق شریعت نے معین کر دیا، ان کے لیے وصیت کا حکم منسوخ ہوگیا، لیکن جن رشتہ داروں کا حق شریعت نے مقرر نہیں کیا، ان کے لیے ایک تہائی مال میں وصیت کا حق اب بھی باقی ہے، لیکن میراث کے حکم سے پہلے یہ فرض تھا اب فرض نہیں ہے۔ حضرت ابنِ عباس? فرماتے ہیں کہ اس آیتِ شریفہ کے حکم سے ان کو وصیت منسوخ ہوگئی جو وارث بنتے ہیں اور جو وارث نہیں بنتے ان کو وصیت منسوخ نہیں ہوئی۔ قتادہ ؒ کہتے ہیں کہ اس آیتِ شریفہ میں وصیت اب ان کے لیے رہ گئی جو وارث نہیں ہوتے، خواہ وہ رشتہ دار ہوں یا نہ ہوں۔ (دُرِّمنثور)
ایک حدیث میں اللہ کا ارشاد آیا ہے: اے آدم کے بیٹے! تو زندگی میں بخیل تھا مرنے کے وقت اِسراف کرنے لگا! دو برائیاں اکھٹی نہ کر، ایک زندگی (میں بخل) کی دوسری مرنے کے وقت کی۔ تو اپنے ایسے رشتہ داروں کو دیکھ جو تیری میراث سے محروم ہیں اور ان کے لیے کچھ وصیت کر جا۔ (کنز العمال)
آیات میں نمبر(۲) پر خود حق تعالیٰ شا نہٗ کے پاک کلام میں بھی اس طرف اشارہ گزرچکا ہے کہ صدقہ اس وقت کا افضل ہے جب کہ آدمی کو مال کی محبت ستا رہی ہو، بمقابلہ اس کے کہ دل سرد ہوچکا ہو۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ اس شخص سے ناراض ہوتے ہیں جو اپنی زندگی میں تو بخیل ہو اور مرنے کے وقت سخی ہو۔ (کنز العمال)
اس لیے جو لوگ صدقات واَوقاف میں مرنے کے وقت کا انتظار کرتے ہیں یہ پسندیدہ چیز نہیں ہے۔ اوّل تو اس کاعلم کسی کو نہیں کہ کب اور کس طرح موت آجائے۔ متعدد واقعات اس قسم کے قابلِ عبرت دیکھنے میں آئے کہ مرنے کے وقت 
Flag Counter