Deobandi Books

فضائل صدقات اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

67 - 607
فرمایا کرتے تھے میرا نہیں جی چاہتا کہ یہ گندگی رات کو میرے پاس رہے، موت کا اعتبار نہیں ہے۔ اس سے بڑھ کر میں نے حضرتِ اقدس قدوۃ الزاہدین شاہ عبدالرحیم صاحب رائے پوری نور اللہ مرقدہٗ کے متعلق سنا ہے کہ حضرت کے پاس فتوحات کی کثرت تھی۔ اور جب کچھ جمع ہو جاتا تو بہت اہتمام سے اس کو خیر کے مواقع میں تقسیم فرما دیا کرتے۔ اس کے بعد پھر کہیں سے کچھ آجاتا تو چہرۂ مبارک پر گرانی کے آثار ہوتے اور ارشاد فرماتے کہ یہ اور آگیا۔ آخر میں حضرت نے اپنے پہننے کے کپڑے بھی تقسیم فرما دیے تھے۔ اور اپنے مخصوص خادم حضرت مولانا عبدالقادر صاحب زاد مجدہم سے فرمایا تھا کہ بس اب تو تم سے کپڑا مستعار لے کر پہن لیا کروں گا۔ اللہ کے اولیا کی شانیں اور انداز بھی عجیب ہوا کرتے ہیں۔ یہ بھی ایک ولولہ ہے کہ جیسے آئے تھے ویسے ہی واپس جاویں، اس دنیا کے متاع کا ذخیرہ مِلک میں نہ ہو۔
۵۔ عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَؓ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَيُّ الصَّدَقَۃِ أَعْظَمُ أَجْرًا؟ قَالَ: أَنْ تَصَدَّقَ وَأَنْتَ صَحِیْحٌ شَحِیْحٌ تَخْشَی الْفَقْرَ وَتَأْمُلُ الْغِنی، وَلَا تُمْھِلْ حَتّی إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَ قُلْتَ: لِفُلاَنٍ کَذَا وَلِفُلاَنٍ کَذَا۔ وَقَدْ کَانَ لِفُلاَنٍ۔
متفق علیہ، مشکاۃ المصابیح۔


ایک آدمی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کون سا صدقہ ثواب کے اعتبار سے بڑھا ہوا ہے؟ حضورﷺ نے فرمایا: یہ کہ تو صدقہ ایسی حالت میں کرے کہ تندرست ہو، مال کی حرص دل میں ہو، اپنے فقیر ہو جانے کاڈر ہو، اپنے مال دار ہونے کی تمنا ہو۔ اور صدقہ کرنے کو اس وقت تک مؤخر نہ کر کہ روح حلق تک پہنچ جائے۔ یعنی مرنے کا وقت قریب آجائے، 
تو تُو یوں کہے کہ اتنا مال فلاں (مسجد) کا اور اتنا مال فلاں (مدرسہ) کا۔ حالاںکہ اب مال فلاں (وارث) کا ہوگیا۔
فائدہ: ’’فلاں (وارث) کا ہوگیا‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ وارث کا حق اس میں شامل ہوگیا۔ اسی لیے وصیت صرف ایک تہائی میں ہوسکتی ہے اور مرض الموت کے صدقات بھی تہائی میں ہوسکتے ہیں، اس سے زیادہ کا حق مرنے والے کو نہیں ہے۔ اسی واسطے ایک اور حدیث میں حضورِاقدسﷺ کا پاک ارشاد ہے کہ آدمی کہتا ہے: میرا مال میرا مال۔ حالاںکہ اس کا مال صرف تین چیزیں ہیں: جو کھالیا یا پہن لیا یا اللہ کے خزانہ میں صدقہ کرکے جمع کر دیا۔ اس کے علاوہ جو رہ گیا وہ جانے والا ہے۔ یعنی یہ شخص اس کو لوگوں کے لیے چھوڑنے والا ہے۔ (مشکاۃ المصابیح) ایک اور حدیث میں ہے کہ آدمی اپنی زندگی میں ایک درہم صدقہ کردے، وہ اس سے بہتر ہے کہ مرتے وقت سودرہم صدقہ کرے۔ (مشکاۃ المصابیح) اس لیے کہ واقعی مرتے وقت تو وہ گویا دوسرے کے مال میں سے صدقہ کر رہا ہے کہ اب اس کا کیا رہا، اس کو تو بہرحال اس مال کو چھوڑ کر جانا ہے۔ ایک اور حدیث میں حضورﷺ کا ارشاد نقل کیا گیا کہ جو شخص مرتے وقت صدقہ کرتا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسا کہ کوئی 
Flag Counter