Deobandi Books

فضائل صدقات اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

66 - 607
کی مہلت نہ ملی۔ حضورﷺنے دریافت فرمایا کہ وہ اشرفیاں تقسیم کر دیں؟ میں نے عرض کیا: آپ کی بیماری نے بالکل مہلت نہ دی۔ فرمایا: اٹھا کرلائو۔ ان کو لے کر ہاتھ پر رکھا اور فرمایا کہ اللہ کے نبی کا کیا گمان ہے (یعنی اس کو کس قدر ندامت ہوگی) اگر وہ اس حال میں اللہ سے ملے کہ یہ اس کے پاس ہوں۔ (مشکوٰۃ المصابیح)
ایک اور حدیث میں حضرت عائشہؓ سے اسی قسم کا ایک اور قصہ نقل کیا گیا جس میں وارد ہے کہ ر ات ہی کو کہیں سے آگئی تھیں۔ حضورﷺکی نیند اڑ گئی۔ جب اَخیر شب میں میں نے ان کو خرچ کر دیا جب نیند آئی۔ (اِحیاء العلوم) حضرت سہلؓفرماتے ہیں کہ حضورﷺ کے پاس سات اشرفیاں تھیں جو حضرت عائشہؓ کے پاس رکھی تھیں۔ حضورﷺ نے حضرت عائشہؓسے فرمایا کہ وہ علی کے پاس بھیج دو۔ یہ فرمانے کے بعد حضورﷺ پر غشی طاری ہو گئی جس کی وجہ سے حضرت عائشہؓ اس میں مشغول ہوگئیں۔ تھوڑی دیر میں افاقہ ہوا تو پھر یہی فرمایا اور پھر غشی ہوگئی۔ باربار غشی ہو رہی تھی، آخر حضورﷺ کے بار بار فرمانے پر حضر ت عائشہؓ نے حضر ت علیؓ کے پاس وہ بھیج دیں۔ انھوں نے تقسیم فرما دیں۔
یہ قصہ تو دن میں گزرا۔ اور شام کو کہ دو شنبہ کی رات حضورﷺ کی زندگی کی آخری رات تھی، حضرت عائشہؓ کے گھر میںچراغ میں تیل بھی نہ تھا۔ ایک عورت کے پاس چراغ بھیجا کہ حضورﷺ کی طبیعت زیادہ خراب ہے، وصال کا وقت قریب ہے، اس میں گھی ڈال دو کہ اسی کو جلالیں۔ (الترغیب والترہیب)
حضرت ام سَلَمہؓ سے اس قسم کا اور قصہ نقل کیا گیا۔ وہ فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ حضورﷺ تشریف لائے اور آپ کے چہرۂ مبارک پر تغیر (گرانی) کا اثر تھا۔ میںیہ سمجھی کہ طبیعت ناساز ہے۔ میں نے عرض کیا: یارسول اللہ! آپ کے چہرۂ مبارک پر کچھ گرانی کا اثر ہے کیا بات ہوئی؟ فرمایا: سات دینار رات آگئے تھے، وہ بسترے کے کونے پر پڑے ہیں اب تک خرچ نہیں ہوئے۔ (عراقی، اِحیاء العلوم)
حضورﷺ کی خدمت میں ہدایا تو آتے ہی رہتے تھے، لیکن دن ہو، رات ہو، صحت ہو، بیماری ہو، اس وقت تک طبیعت مبارک پر بوجھ رہتا تھا جب تک وہ خرچ نہ ہو جائیں۔ او ر حد ہے کہ اپنے گھر میں بیماری کی شدت میں رات کو جلانے کو تیل بھی نہیں، لیکن سات اشرفیاں موجود ہونے پربھی گھر کی ضرورت کا نہ حضورِ اقدسﷺ کو خیال آیا نہ ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ ہی کو یادآیا کہ تھوڑا سا تیل بھی منگالیں۔
مجھے اپنے والد صاحب نور اللہ مرقدہ  کا یہ معمول دیکھنے کا بار ہا موقعہ ملا کہ رات کو وہ اپنے مِلک میں کوئی روپیہ پیسہ رکھنا نہیں چاہا کرتے تھے۔ قرضہ تو ہمیشہ ہی سر رہا، حتیٰ کہ وصال کے وقت بھی سات آٹھ ہزارروپیہ قرض تھا، اس لیے اگر رات کو روپوں کی کوئی مقدار ہوتی تو وہ کسی قرض خواہ کے حوالے کر دیتے اور پیسے ہوتے تو وہ بچوں میں سے کسی کو دے دیتے، اور 
Flag Counter