Deobandi Books

فضائل صدقات اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

44 - 607
ان پر فاقہ ہی کیوں نہ ہو، اور (حق یہ ہے کہ) جو شخص اپنی طبیعت کے لالچ سے محفوظ رہے وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔
فائدہ: اوپر کی آیات میں بیت المال کے مستحقین کاذکر ہو رہا ہے کہ کن کن لوگوں کا اس میں حق ہے۔ من جملہ ان کے اس آیتِ شریفہ میں انصار کا ذکر ہے اور ان کے خصوصی اوصاف کی طرف اشارہ ہے۔ جن میں سے ایک یہ ہے کہ انھوں نے اپنے گھر میں رہ کرایمان اور کمالات حاصل کیے ہیں اور اپنے گھر رہ کر کمالات کا حاصل کرنا عام طور سے مشکل ہوا کرتا ہے۔ دنیوی دھندے اور دوسرے امور اکثر آڑ بن جاتے ہیں۔ اور دوسری خاص صفت انصار کی یہ ہے کہ یہ لوگ مہاجرین سے بے حد محبت کرتے ہیں۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ کا جس کوعلم ہے وہ ان حضرات کے حالات اور ان کی محبت کے واقعات سے حیرت میں رہ جاتا ہے۔ چند واقعات ’’حکایاتِ صحابہ ‘‘ میں بھی گزر چکے ہیں۔ ایک واقعہ مثال کے طور پر یہاں لکھتا ہوں کہ جب حضورِ اقدسﷺ  ہجرت کرکے مدینہ طیّبہ تشریف لائے، تو مہاجرین اور انصار کے درمیان میں حضورﷺ نے بھائی چارہ اس طرح فرما دیا تھا کہ ہر مہاجر کا ایک انصاری کے ساتھ خصوصی جوڑ پیدا کر دیا تھااور ایک ایک مہاجر کوایک ایک انصاری کا بھائی بنا دیا تھا۔ اس لیے کہ حضرات مہاجرین پر دیسی حضرات ہیں، ان کو اجنبی جگہ ہر قسم کی مشکلات پیش آئیں گی۔ انصار مقامی حضرات ہیں، وہ اگر ان لوگوں کی خاص طور سے خبر گیری اور معاونت کریں گے تو ان کو سہولتیں پیدا ہو جائیں گی۔ کیسا بہترین انتظام تھا حضورِ اقدسﷺکا کہ اس میں مہاجرین کو بھی ہر قسم کی سہولت ہوگئی اورانصار کو بھی دِقّت نہ ہوئی کہ ایک شخص کی خبر گیری ہر شخص کو آسان ہے۔
اسی سلسلہ میں حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ خود اپنا قصہ بیان کرتے ہیں کہ جب ہم لوگ مدینہ طیّبہ آئے تو حضورِ اقدسﷺ نے میرے اور سعد بن ربیعؓ کے درمیان بھائی بندی کا رشتہ جوڑ دیا۔ سعد بن الربیعؓ نے مجھ سے کہا کہ میں انصار میں سب سے زیادہ مال دار ہوں،میرے مال میں سے آدھا تم لے لو۔ اور میری دو بیویاں ہیں، ان میں سے جونسی تمہیں پسند ہو میں اس کو طلاق دے دوں، جب اس کی عدت پوری ہو جائے تم اس سے نکاح کرلینا۔(بخاری)
یزید بن اصم ؒکہتے ہیں کہ انصار نے حضورِ اقدسﷺ سے درخواست کی کہ ہم سب کی زمینیں مہاجرین پر آدھی آدھی بانٹ دیجیے۔ حضورﷺ نے اس کو قبول نہیں فرمایا، بلکہ یہ ارشاد فرمایا کہ کھیتی وغیرہ میں یہ لوگ کام کریں گے اور پیداوار میں حصہ دار ہوں گے۔ (دُرِّمنثور) کہ ان کی محنت سے تم کو مدد ملے گی اور تمہاری زمین سے ان کو مدد ملے گی۔
اس قسم کے تعلقات اور آپس کی محبت محض دینی برادری پرآج عقل میں بھی مشکل سے آئے گی۔ اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ آج وہ مسلمان جس کا خصوصی امتیاز اِیثار اور ہمدردی تھی محض خود غرضی اور نفس پروری میں مبتلا ہے۔ دوسروں کو جتنی بھی تکلیف پہنچ جائے اپنے کو راحت مل جائے۔ کبھی مسلمان کا شیوہ یہ تھا کہ خود تکلیف اٹھائے تاکہ دوسروں کو 
Flag Counter