Deobandi Books

فضائل صدقات اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

334 - 607
لاَّتُکْرِمُوْنَ الْیَتِیْمَ o وَلَا تَحٰضُّوْنَ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِo وَتَاْکُلُوْنَ التُّرَاثَ اَکْلاً  لَّمًّا o وَّتُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا o کَلاَّ اِذَا دُکَّتِ الْاَرْضُ دَکًّا دَکًّا o وَّجَآئَ رَبُّکَ وَالْمَلَکُ صَفًّا صَفًّا o وَجِایْٓئَ یَوْمَئِذٍ م بِجَھَنَّمَ لا یَوْمَئِذٍ یَّتَذَکَّرُ الْاِنْسَانُ وَاَنّٰی لَہُ الذِّکْریٰ o یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِیْ  قَدَّمْتُ لِحَیَاتِیْ o (الفجر:ع۱)
پس آدمی کا جب حق تعالیٰ شا نہٗ امتحان لیتا ہے، پس (امتحان کے طور پر کبھی) اس پر انعام و اکرام فرماتا ہے (مال کا، جاہ کا اور اس قسم کی چیزوں کا تاکہ ان چیزوں میں اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری کا امتحان ہو، اور یہ جانچا جائے کہ اللہ کی ان نعمتوں میں کیا کارگزاری کی؟ یہ مال اور جاہ اس کے راستہ میں خرچ ہوئے یا ناراضی میں؟) تووہ کہتا ہے کہ میرے ربّ نے میرا اکرام کیا۔ (یعنی اپنے مکرَّم اور معزَّز ہونے کا گھمنڈ شروع ہو جاتا ہے ، حالاںکہ یہ گھمنڈ کی چیز نہیں ہے۔ اور اگرچہ اللہ کا شکر اس کی نعمتوں پر بہت ضروری ہے، مگر اس کے ساتھ ہی ان نعمتوں کے امتحانی پہلو کا خوف بھی ضروری ہے۔ اور جب حق تعالیٰ شا نہٗ کو آدمی کا دوسری طرح امتحان کرنا مقصود ہوتا ہے ) اور اس کو جانچتا ہے اس طرح پر کہ اس کی روزی اس پر تنگ کر دیتا ہے (جس سے اس کے صبر اور رضا کا امتحان مقصود ہوتا ہے)، توکہتا ہے کہ میرے ربّ نے مجھے ذلیل کر دیا (یعنی میرے استحقاقِ اکرام کے باوجود مجھے نظروں سے گرا رکھا ہے، حالاںکہ نہ مال و دولت اکرام کی دلیل ہے، نہ فقرو وفاقہ اہانت کی دلیل ہے)۔ ہرگز نہیں، (یہ بات بالکل نہیں ہے کہ روزی کی تنگی اہانت کی بات ہو) بلکہ (موجبِ اہانت یہ چیزیں ہیں کہ ) تم لوگ یتیم کا اکرام نہیں کرتے اور دوسروںکو بھی مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتے اور میراث کا مال سارا کھا جاتے ہو (اور دوسروںکا حق بھی ہضم کر جاتے ہو، بالخصوص یتیموں اور ضعیفوں کاجو تم سے لڑ بھی نہ سکتے ہوں)۔ اور تم مال سے بہت ہی محبت رکھتے ہو (جو جڑ ہے ساری برائیوں کی، سارے مظالم کی، سارے عیوب کی۔ اس لیے کہ دنیا کی محبت ہر خطا کی جڑ ہے۔ تم لوگ ان چیزوں کو ہلکا سمجھتے ہو؟) ہرگز نہیں (یہ معمولی چیزیں نہیں ہیں، بلکہ ) جس وقت زمین کو توڑ کر ریزہ ریزہ کر دیاجائے گا، اور آپ کا ربّ اور فرشتے جو ق در جوق (میدانِ حشر میں) آئیں گے، اور اس دن جہنم کو (سامنے )لایا جائے گا، اس دن آدمی کو سمجھ آوے گی اور اس وقت سمجھ آنے کاوقت کہاں (رہے گا؟ اس دن کا سمجھ میں آنا کارآمد نہیں) اس دن آدمی کہے گا کہ کاش! میں آج کی زندگی کے واسطے کچھ ذخیرہ آگے بھیج دیتا۔
۳۱۔			     بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ  الرَّحِیْمِ
وَالْعَصْرِ o اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ o اِلاَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ  وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ o ( العصر)
قسم ہے زمانہ کی (کہ جس کے تغیرا ت موجبِ عبرت ہیں۔ کہیں رنج کہیں خوشی، کہیںثروت کہیں غربت، کہیں صحت کہیں بیماری) کہ انسان (اپنی عزیز عمر کو ضائع کرکے) بڑے خسارہ میںہے، مگر وہ لو گ جو ایمان لائے اور انھوں نے اچھے عمل کیے اور ایک دوسرے کو حق (بات کہنے کی اور حق پرقائم رہنے) کی وصیت (اورتاکید) کرتے رہے اور ایک 
Flag Counter