Deobandi Books

فضائل صدقات اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

333 - 607
اوربرائی کا بدلہ اسی قسم کی برائی ہے (یعنی جس قسم کی برائی کسی نے کی اسی قسم کی برائی سے بدلہ لیا جاسکتا ہے، بشرطے کہ وہ فعل جائز ہو۔ مثلاً: سخت کلامی کا بدلہ سخت کلامی، مار کا بدلہ مار ہے۔ یہ نہیں کہ سخت کلامی کا بدلہ مارنے سے لیا جائے)۔ پھر جو شخص (بدلہ ہی نہ لے بلکہ) معاف کردے اور اصلاح کرے (یعنی اس کے ساتھ اچھائی کا برتائوکرے) تواس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے، واقعی اللہ تعالیٰ ظالموں کو محبوب نہیں رکھتے۔ اور جو اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعد برابر کا بدلہ لے لے، پس ایسے لوگوں پر کوئی الزام نہیں۔ الزام صرف انھی لوگوں پر ہے جو لوگوں پرظلم کرتے ہیں اور دنیا میں سرکشی کرتے ہیں، ایسے لوگوں کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ اور جو (دوسروں کے ظلم پر) صبر کرے اور (اس کو) معاف کر دے، یہ البتہ بڑی ہمت کے کاموں میں سے ہے (یعنی مظالم پرصبر کرنا اور معاف کرنا بڑی اولُوالعزمی کی بات ہے)۔
۲۸۔ تَبَارَکَ الَّذِیْ بِیَدِہِ الْمُلْکُ ز وَھُوَعَلٰی کُلِّ شيْئٍ قَدِیْرُ o  نِ الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً ط (الملک : ع ۱)
وہ (پاک ذات) بڑی عالی شان ہے جس کے قبضہ میں تمام ملک ہے (ساری دنیا کی سلطنتیںاسی کے قبضہ میں ہیں) اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ وہ (پاک) ذات ہے جس نے موت اور زندگی کو اس لیے پیدا کیا تاکہ تمہارا امتحان کرے کہ کون شخص عمل میںزیادہ اچھا ہے۔
حضرت قتادہ ؒکہتے ہیں کہ اللہ نے اس گھر کو زندگی اورموت کا گھر بنایا ہے، اور آخرت کے گھر کو بدلہ اور بقا کا گھر بنایا ہے۔ (دُرِّمنثور) اِس گھر کی ساری تکالیف کا منتہا موت ہے اوروہ بہرحال آنے والی چیز ہے، اور اُس گھر کی تکلیف کی کوئی انتہا ہی نہیں کہ وہاں موت بھی نہیں ہے۔
۲۹۔ ھَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّھْرِ لَمْ یَکُنْ شَیْئًا مَّذْکُوْرًا o اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ ق نَّبْتَلِیْہِ فَجَعَلْنٰـہُ سَمِیْعًام بَصِیْرًا o اِنَّا ھَدَیْنٰہُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّاِمَّا کَفُوْرًاo (الدہر : ع ۱)
بے شک انسان پر زمانہ میں ایک ایسا وقت آچکا ہے کہ وہ کچھ بھی قابلِ ذکر نہ تھا (کہ اس سے پہلے منی تھا اور اس سے پہلے وہ بھی نہ تھا)۔ ہم نے اس کو نطفۂ مخلوط سے (یعنی ماںباپ کی منی کے ملنے سے) پیدا کیا کہ ہم اس کو جانچیں، پھر ہم نے اس کو سنتا دیکھتا بنایا (یعنی آنکھ کان دیے کہ حق بات خود دیکھے یا دوسروں سے سنے، پھر) ہم نے اس کو (بھلائی) کا راستہ بتا دیا (پھروہ آدمی دو طرح کے ہوگئے) یا تو شکرگزار (اورمؤمن ) بن گیا یا ناشکری کرنے والا (کافر) بن گیا۔
فائدہ : جب یہ دارُ الامتحان ہے، ایسی حالت میں کسی حالت پر بھی ناشکری کرتے ہوئے یہ سوچنا ضروری ہے کہ اللہ کے کتنے انعامات ایسے ہیں جن پر شکر اس تکلیف اورمصیبت سے زیادہ ضروری ہے۔
۳۰۔ فَاَمَّا الْاِنْسَانُ اِذَا مَا ابْتَلٰہُ رَبُّہٗ فَاَکْرَمَہٗ وَنَعَّمَہٗ لا فَیَقُوْلُ رَبِّیْ اَکْرَمَنِ o وَاَمَّا اِذَا مَا ابْتَلٰـہُ فَقَدَرَ عَلَیْہِ رِزْقَہٗ فَیَقُوْلُ رَبِّیٓ اَھَانَنِ o کَلاَّ بَلْ 
Flag Counter