Deobandi Books

فضائل صدقات اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

33 - 607
شک اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔
فائدہ:    ۶ھ؁ میں غزوۂ بنی مصطلق کے نام سے ایک جہاد ہوا ہے، جس میں حضرت عائشہؓ بھی حضورِ اقدسﷺکے ہمراہ تھیں۔ ان کی سواری کا اونٹ علیحدہ تھا، اس پر ہودج تھا۔ یہ اپنے ہودج میں رہتی تھیں۔ جب چلنے کا وقت ہوتا ، چند آدمی ہودج کو اٹھا کر اونٹ پر باندھ دیتے۔ بہت ہلکا پھلکا بدن تھا، اٹھانے والوں کو اس کا احساس بھی نہ ہوتا تھا کہ اس میں کوئی ہے یا نہیں۔ اس لیے کہ جب چار آدمی مل کر ہودج کو اٹھائیں، اس میں ایک کمسن ہلکی پھلکی عورت کے وزن کا کیا پتہ چل سکتا ہے؟ حسبِ معمول ایک منزل پر قافلہ اترا ہوا تھا، جب روانگی کا وقت ہوا تو لوگوں نے ان کے ہودج کو باندھ دیا۔ یہ اس وقت استنجے کے لیے تشریف لے گئیں تھیں۔ واپس آئیں تو دیکھا کہ ہار نہیں ہے جو پہن رہی تھیں۔ یہ اس کو تلاش کرنے چلی گئیں، پیچھے یہاں قافلہ روانہ ہوگیا، یہ تنہا اس جنگل میں کھڑی رہ گئیں۔
انھوں نے خیال فرمایا کہ جب راستہ میں حضور ﷺ کو میرے نہ ہونے کا علم ہوگا تو آدمی تلاش کرنے اسی جگہ آئے گا، وہیں بیٹھ گئیں اور جب نیند کا غلبہ ہوا تو سوگئیں۔ اپنے نیک اعمال کی وجہ سے طمانیتِ قلب تو حق تعالیٰ شا نہٗ نے ان سب حضرات کوکمال درجہ کی عطا فرما رکھی تھی، آج کل کی کوئی عورت ہوتی تو تنہا جنگل بیابان میں رات کونیند آنے کا توذکر ہی کیا خوف کی وجہ سے رو کر چلّا کر صبح کر دیتی۔
حضرت صفوان بن معطلؓ ایک بزرگ صحابی تھے، جو قافلے کے پیچھے اس لیے رہا کرتے کہ راستہ میں گری پڑی چیز کی خبر رکھا کریں۔ وہ صبح کے وقت جب اس جگہ پہنچے تو ایک آدمی کو پڑا دیکھا۔ اور چوںکہ پردہ کے نازل ہونے سے پہلے حضرت عائشہؓ کو دیکھا تھا اس لیے ان کو یہاں پڑا دیکھ کر پہچان لیا اور زور سے إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّآ إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھا۔ ان کی آواز سے ان کی آنکھ کھلی اور منہ ڈھانک لیا۔ انھوں نے اپنا اونٹ بٹھایا یہ اس پر سوار ہوگئیں، اور وہ اونٹ کی نکیل پکڑ کر لے گئے اورقافلہ میں پہنچا دیا۔ عبداللہ بن اُبی جو منافقوں کا سردار  اور مسلمانوں کا سخت دشمن تھا ،اس کو تہمت لگانے کا موقع مل گیا اور خوب اس کی شہرت کی۔ اس کے ساتھ بعض بھَولے مسلمان بھی اس تذکرے میں شامل ہوگئے۔ اور اللہ کی قدرت اور شان کہ ایک ماہ تک یہ ذکر تذکرے ہوتے رہے، لوگوں میں کثرت سے اس واقعہ کا چرچا ہوتا رہا اور کوئی وحی وغیرہ حضرت عائشہؓ کی براء ت کی نازل نہ ہوئی۔ حضورِ اقدس ﷺ اور مسلمانوں کو اس حادثہ کا سخت صدمہ تھا اور جتنا بھی صدمہ ہونا چاہیے تھا وہ ظاہر ہے۔ حضورﷺ مردوں سے اور عورتوں سے اس بارے میں مشورہ فرماتے تھے، احوال کی تحقیق فرماتے تھے مگر یکسوئی کی کوئی صورت نہ ہوتی۔ ایک ماہ کے بعد سورۂ نور کا مستقل ایک رکوع قرآن پاک میں حضرت عائشہؓ کی براء ت میں نازل ہوا اور اللہ کی طرف سے ان لوگوں پر سخت عتاب ہوا جنہو ں نے بے دلیل، بے ثبوت 
Flag Counter