Deobandi Books

فضائل صدقات اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

327 - 607
لیا) ان لوگوں کو جنہوں نے تم میں سے جہاد کیا اور نہیں جانا (اور جانچا) صبر کرنے والوں کو۔ (اور یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ دین کے لیے ہر کوشش جہاد میں داخل ہے)
۸۔ وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِکَ  مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِo (آل عمران : ع ۱۹)
اگر تم صبر کرو اورپرہیز گار بنے رہو تو (بہتر ہے ،کیوںکہ) یہ (صبر اورتقویٰ) تاکیدی اَحکام میں سے ہیں۔
۹۔ وَلَقَدْ کُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِکَ فَصَبَرُوْا عَلٰی مَاکُذِّبُوْا وَاُوْذُوْا حَتّٰی اَتٰـھُمْ نَصْرُنَا ج (الأنعام : ع ۴)
بہت سے رسول جو آپ سے پہلے ہوئے ہیں ان کی بھی (بے ایمانوں کی طرف سے) تکذیب کی گئی (اور ان کو سخت تکلیفیں پہنچائی گئیں)۔ پس انھوں نے اس پر صبر ہی کیا جو ان کی تکذیب کی گئی اور ان کوتکلیفیں پہنچائی گئیں، یہاں تک کہ ہماری مدد ان کو پہنچی۔ (اسی طرح آپ بھی ان کی تکلیفوں پر صبر کرتے رہیں)
۱۰۔ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہِ اسْتَعِیْنُوْا بِاللّٰہِ وَاصْبِرُوْا ج اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰہِ قف یُوْرِثُھَا مَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ ط وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ o قَالُوْا اُوْذِیْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْتِیَنَا وَمِنْ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا ط قَالَ عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یُّھْلِکَ عَدُوَّکُمْ وَیَسْتَخْلِفَکُمْ فِیْ الْاَرْضِ فَیَنْظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُوْنَ o (الأعراف :ع ۱۵)
حضرت موسیٰ ؑ نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ سے مد د چاہتے رہو اور صبر کرتے رہو، زمین اللہ تعالیٰ کی ہے جس کوچاہتا ہے اپنے بندوں میں سے اس کا وارث (اور حاکم) بنا دیتا ہے۔ (چناںچہ اس وقت فرعون کو دے رکھی ہے) اورآخر کامیابی انہیں کو ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے ہوتے ہیں۔ (اگر تم صبر اور تقویٰ اختیار کروگے تو انجامِ کار تمہاری ہوجائے گی۔ حضرت موسیٰ ؑکی) قوم نے کہا کہ ہم تو ہمیشہ مصیبت ہی میں رہے، آپ کے تشریف لانے سے پہلے بھی (ہم پر مصیبتیں ڈالی جاتی تھیں اورہماری اولاد کو قتل کیا جاتا تھا) اور آپ کے تشریف لانے کے بعدبھی (طرح طرح کی مصیبتیں ہم پر ڈالی جا رہی ہیں۔ حضرت) موسیٰ ( ؑ) نے کہا: بہت جلد حق تعالیٰ شا نہٗ تمہارے دشمن کو ہلاک کر دیںگے اور بجائے ان کے تم کو اس زمین کا مالک بنا دیں گے، پھر تمہیں دیکھیں گے کہ تم کیسا عمل کرتے ہو؟ (شکراور اطاعت کرتے ہو یا ناقدری اور معصیت کرتے ہو، پھر جیسا تمہارا عمل ہوگا ویسا تمہارے ساتھ برتائو ہوگا)
۱۱۔ اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ o 
						            (التوبۃ: ع ۱۴)
بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے ان کی جانوں کو اور ان کے مالوں کو اس بات کے عوض خرید لیا کہ ان کوجنت ملے گی۔
فائدہ: جب مسلمانوں کاجان ومال سب اللہ تعالیٰ کے ہاتھ فروخت ہو چکا ہے، تو حق تعالیٰ شانہٗ ایسی چیزوں میں جو اسی کی پیدا کی ہوئی ہیں اور پھر مزید یہ کہ ان کو خرید بھی لیا، جو چاہے تصرف کرے، بلکہ مسلمانوںکے بیچ دینے کا مقتضا تویہ ہے کہ اب یہ خود مشتری تک اس کا خریدا ہوا مال پہنچانے کی کوشش کریں اور خود اس پر پیش قدمی کریں، چہ جائے کہ وہ خود اپنی 
Flag Counter