Deobandi Books

فضائل صدقات اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

303 - 607
ہے: اگر کوئی شخص ساری دنیا کا مال محض اللہ کے واسطے لیتا ہے (اپنی غرض سے نہیں) تو وہ زاہد ہے، اور اگر بالکل ذرا سا بھی نہیں لیتا اور یہ نہ لینا اللہ کے واسطے نہیں ہے، (بلکہ کسی دنیوی غرض حبِ جاہ وغیرہ کی وجہ سے ہے) تووہ دنیا دار ہے۔ (اِحیاء العلوم)
ایک اور حدیث میں ہے کہ یہ مال سرسبز اور میٹھی چیز ہے۔ جو اس کو حق کے موافق حاصل کرتا ہے اس کے لیے اس میں برکت دی جاتی ہے ۔ ایک اورحدیث میں ہے کہ دنیا کیا ہی اچھا گھر ہے اس شخص کے لیے جو اس کو آخرت کا توشہ بنائے اور حق تعالیٰ شا نہٗ کو (اس کے ذریعہ )راضی کرلے۔ اورکتنا برا ہے اس شخص کے لیے جو اس کو آخرت سے روک دے اور اللہ تعالیٰ کی رضامیں کوتاہی پیدا کر دے ۔ (کنز العمال)
غرض بہت سی روایات میں یہ مضمون واردہوا ہے کہ مال فی حد ذا تہٖ بری چیز نہیںہے۔ اچھی چیز ہے، کارآمد ہے، اور بہت سے دینی اور دنیوی فوائد اس کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اسی لیے روزی کے کمانے کی،مال کے حاصل کرنے کی ترغیبات بھی احادیث میں واردہوئی ہیں، لیکن چوںکہ اس میں ایک زہریلا اور سمی مادّہ ہے، اور قلوب عام طور سے بیمار ہیں، اس لیے کثرت سے قرآنِ پاک کی آیات اور احادیثِ شریفہ میں اس کی زیادتی اور کثرت سے بچنے کی ترغیبیں آئی ہیں۔ اس کی کثرت کو خاص طور سے غیر پسندیدہ بلکہ مہلک بتایا گیا، اسی لیے حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ جس بندہ سے محبت فرماتے ہیں دنیا سے اس کی ایسی حفاظت فرماتے ہیں اور اس کو اہتمام سے بچاتے ہیں جیسا کہ تم لوگ اپنے بیمار کو پانی سے بچاتے ہو۔ (مشکاۃ المصابیح)
حالاںکہ پانی کیسی اہم اور ضروری چیز ہے کہ زندگی کا مدار ہی اس پر ہے، بغیر اس کے زندگی رہ نہیں سکتی، لیکن اس سب کے باوجود اگر حکیم کسی بیمار کے لیے پانی کومضر بتا دے تو کتنی کتنی ترکیبیں اس کوپانی سے روکنے کی کی جاتی ہیں۔ اور یہ کیوں؟ اس لیے کہ مال کی کثرت سے عموماً نقصانات زیادہ پہنچتے ہیں۔ اور یہ اس وجہ سے ہے کہ ہمارے قلوب ایسے صاف نہیں ہیں کہ وہ اس کے نشہ سے متاثر نہ ہوں۔ اسی وجہ سے حضورﷺ کا پاک ارشاد ہے کہ تم میں سے کوئی شخص ایسا ہے جو پانی پر چلے اور اس کے پائوں پانی میں تر نہ ہوں۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ایسا توکوئی بھی نہیں ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا: یہی حال دنیا دار کاہے کہ اس کا گناہوں سے بچنا مشکل ہے۔ (مشکاۃ المصابیح) 
اور مشاہدہ بھی یہی ہے کہ بخل، حسد، کبر، عجب، کینہ، ریا، تفاخر وغیرہ قلبی امراض اور گناہ جتنے ہیں، وہ مال کی وجہ سے بہت جلد اوربہت کثرت سے پیدا ہوتے ہیں۔ اور اسی طرح آوارگی، شراب نوشی، قمار بازی، سود خواری وغیرہ اور مختلف قسم کے شہوانی گناہ بھی اس کی وجہ سے بہت کثرت سے ہوتے ہیں۔ اور پھراس کی طبعی محبت قلوب میں اس درجہ جگہ پکڑے ہوئے ہے کہ آدمی کے پاس جتنا بھی زیادہ سے زیادہ ہو جائے، اس پرہمیشہ زیادتی کا طالب اور اس کا کوشاں رہتا ہے۔ 
Flag Counter