Deobandi Books

فضائل صدقات اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

279 - 607
درجہ کے بعد علم کے برابر کسی کا درجہ بھی نہیں پاتا۔ جب کوئی اہلِ علم میں سے کسی دوسری طرف متوجہ ہوتا ہے تو اس کے علمی مشغلہ میں نقصان ہوتا ہے۔ اس لیے ان کو علمی مشاغل کے لیے فارغ رکھنا سب سے افضل ہے۔
ج : وہ شخص اپنے تقویٰ او ر اپنے علم میں حقیقی موحِّد ہو۔اور حقیقی موحِّد ہونے کی علامت یہ ہے کہ جب اس پرکوئی احسان کرے تو وہ اللہ تعالیٰ شا نہٗ کا شکرکرے اور دل سے یہ بات سمجھے کہ حقیقی احسان اسی پاک ذات کا ہے، وہی اصل عطا کرنے والا ہے۔ اور جو دینے والا ظاہر میں دے رہا ہے وہ صرف واسطہ اور ایلچی ہے۔ حضرت لقمان  ؑ کی اپنے بیٹے کو وصیت ہے کہ اپنے اور حق تعالیٰ شا نہٗ کے درمیان کسی دوسرے کو احسان کرنے والا مت بنا، کسی دوسرے کے احسان کو اپنے اوپر تاوان سمجھ۔ جو شخص واسطہ کا حقیقی احسان سمجھتا ہے اس نے حقیقی احسان کرنے والے کو پہچانا ہی نہیں۔ اس نے یہ نہ سمجھا کہ یہ واسطہ ہے، اللہ تعالیٰ ہی نے اس کے دل میں یہ بات ڈالی تھی کہ فلاں شخص پر احسان کیا جائے، اس لیے وہ اپنے اس احسان کرنے میں مجبور تھا۔ اور جب آدمی کے دل میں یہ بات جم جائے تو پھر اس کی نگاہ اسباب پر نہیں رہتی، بلکہ مسبب الاسباب پر ہو جاتی ہے۔ اور ایسے شخص پر احسان کرنا، احسان کرنے والے کے لیے زیادہ نافع ہوتا ہے۔ اور دوسروں کے بہت لمبے چوڑے ثنا و شکر کے الفاظ سے اس پر احسان کرناکہیں زیادہ بڑھا ہوا ہے۔ اس لیے کہ جو آج احسان پرلمبی چوڑی تعریف کررہا ہے وہ کل کو اعانت روکنے پر اسی طرح برائیاں شروع کر دے گا۔ اور جو حقیقی موحِّد ہوگا وہ کل کو مذمت بھی نہ کرے گا کہ وہ واسطہ کو و اسطہ ہی سمجھتا ہے۔
د: جس پر صدقہ کیا جائے وہ اپنی حاجات اورضرورتوں کا اِخفا کرنے والا ہو، لوگوں سے اپنی قلتِ معاش کا اورآمدنی کی کمی کااِظہار نہ کرتا ہو، بالخصوص وہ شخص جو مروت والوں میں سے ہو اور اس کی آمدنی پہلے سے کم رہ گئی ہو، لیکن اس کی مروت کی عادت جو آمدنی کی زیادتی کے زمانہ میں تھی وہ بدستور باقی ہو۔ وہ درحقیقت ایسا ضرورت مند ہو،جو ظاہر میں غنی ہے۔ ایسے ہی لوگوں کی تعریف میں اللہ تعالیٰ شا نہٗ نے فرمایا ہے: { یَحْسَبُھُمُ الْجَاھِلُ اَغْنِیَآئَ مِنَ التَّعَفُّفِ} یہ آیتِ شریفہ سورۂ بقرہ کے سینتیسویں رکوع کی ہے، پوری آیتِ شریفہ یہ ہے :
{لِلْفُقَرَآئِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِی الْاَرْضِ یَحْسَبُھُمُ الْجَاھِلُ اَغْنِیَآئَ مِنَ التَّعَفُّفِ ط تَعْرِفُھُمْ بِسِیْمَاھُمْ لَایَسْئَلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا ط وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیْمٌ o}
(صدقات) اصل حق ان حاجب مندو ں کا ہے جو مقیدہوگئے ہوں اللہ کی راہ  (یعنی دین کی خدمت) میں (اور اسی خدمتِ دین میں مقید اور مشغول رہنے سے) وہ لوگ (طلبِ معاش کے لیے) کہیں ملک میں چلنے پھرنے کا (عادتاً) امکا ن نہیں رکھتے اور ناواقف شخص ان کو تونگر خیال کرتا ہے ان کے سوال سے بچنے کے سبب سے، (البتہ) تم ان لوگوں کو 
Flag Counter