Deobandi Books

فضائل صدقات اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

278 - 607
اس لیے طیّب ہی مال قبول فرماتے ہیں۔ اگر آدمی یہ خیال کرے کہ یہ مال جو صدقہ کیا جارہا ہے حق تعالیٰ شا نہٗ کو دیا جا رہا ہے توکس قدر گستاخی اور بے ا دبی ہے کہ جس پاک ذات کا ما ل ہے، جس کا عطا کیا ہوا ہے، اس کی خدمت میں تو گھٹیا قسم کا مال پیش کرے، اور خود اپنے لیے عمدہ اور بہتر رکھے۔ اس کی مثال اس نوکر یا خانساماں کی سی ہے جو آقا کے لیے تو باسی روٹی اور دال بُودار رکھے، اور اپنے لیے قورمہ پکائے۔ خود ہی غور کرلو کہ ایسے نوکر کے ساتھ آقا کاکیا معاملہ ہونا چاہیے۔ پھر دنیا کے آقائوں کو تو ہرہر چیز کی خبر بھی نہیں ہوتی اور اس علیم و خبیر کے سامنے ہر ہر بات رہتی ہے، بلکہ دل کے خیالات بھی ہروقت سامنے ہیں۔ ایسی حالت میں اسی کے مال میں سے اسی کے لیے گھٹیا اور خراب چیز بھیجنا کس قدر نمک حرامی ہے؟ اور اگر آدمی یہ خیال کرے کہ یہ جوکچھ خرچ کر رہا ہے وہ اپنے ہی نفع کے لیے ہے، اس کا بدلہ نہایت سخت اِحتیاج کے وقت اپنے ہی کو ملنا ہے تو کس قدر حماقت کی بات ہے کہ آدمی اپنے لیے تو سڑیل گھٹیا چیزیں رکھے اور اچھا اچھا مال دوسروں کے واسطے چھوڑ جائے۔ حدیث میں آیا ہے کہ آدمی کہتا ہے: میرا مال، میرا مال۔ حالاںکہ اس کا مال صرف وہ ہے جو صدقہ کرکے آگے بھیج دیا یا کھاکر ختم کر دیا، باقی جو رہ گیا وہ دوسروں کامال ہے (یعنی وارثوں کا)۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک دِرَم کبھی لاکھ دِرَم سے بڑھ جاتا ہے اور وہ اسی طرح سے ہے کہ آدمی حلال کمائی سے عمدہ مال طیبِ خاطر اور سرور سے خرچ کرے، بجائے اس کے کہ مکروہ مال سے ایک لاکھ دِرَم خرچ کرے۔ 
نمبر۸: آٹھواں ادب یہ ہے کہ اپنے صدقہ کو ایسے موقع میں خرچ کرے جس سے اس کاثواب بڑھ جائے۔ اور چھ صفات ایسی ہیں کہ جس کے اندر ان میں سے ایک بھی صفت ہو اس کو دینے سے صدقہ کاثواب بہت بڑھ جاتا ہے۔ اور جس میں ان میں سے جتنی صفات زیادہ ہوں گی اتنا ہی اجر بھی زیادہ ہوگا اور ثواب کے اعتبار سے اتناہی صدقہ بڑھ جائے گا۔
الف : متقی پرہیزگار ہو، دنیا سے بے رغبت اور آخرت کے کاموں میں مشغول ہو۔  حضورﷺ کا پاک ارشاد ہے کہ تیرا کھانا متقیوں کے سوا کوئی نہ کھاوے۔ یہ حدیث پہلی فصل کی احادیث میں نمبر (۲۳) پرگزر چکی ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ متقی آدمی تیرے اس صدقہ سے اپنے تقویٰ اور اطاعت میں اعانت حاصل کرے گا، اور توگویا اس کے اس تقویٰ میں معین ہوا اور اس کی عبادت میں ثواب کا شریک ہوا۔
ب : اہلِ علم ہو۔ اس لیے کہ اس سے تیری اعانت اس کے علوم حاصل کرنے میں اور پھیلانے میں شامل ہو جائے گی۔ اور علم تمام عبادتوں میںاشرف اور اعلیٰ عبادت ہے، اور جتنی بھی علمی مشغلہ میںنیت اچھی ہوگی اتنی ہی یہ عبادت اعلیٰ سے اعلیٰ ہوتی جائے گی۔ حضرت عبداللہ بن مبارک ؒ مشہور محدث اوربزرگ ہیں، وہ اپنی عطائوں کو علما کے ساتھ مخصوص رکھتے تھے۔ کسی نے عرض کیا کہ اگر غیر عالموں پربھی آپ کرم فرمائیں تو کیسا اچھا ہو۔ انھوں نے فرمایا کہ میںنبوت کے 
Flag Counter