Deobandi Books

فضائل صدقات اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

277 - 607
مثلاً سو روپے امانت رکھوائے تھے اور اس میں سے اس نے پچاس ساٹھ واپس لے لیے اس وعدہ پر کہ عن قریب ہی اتنی گِنّیاں اس کے بدلہ میں تمہیں دے دوںگا، یا یوں سمجھو کہ پچاس واپس لیے اور پانچ سو کا چیک بینک کا کاٹ کر تمہارے حوالہ کر دیا تو ایسی حالت میں کیا گھمنڈ کا موقع ہے اس بات کا کہ میں نے امانت رکھنے والے کو کچھ واپس کیا؟ 
اسی وجہ سے اس ادب کے ماتحت یہ چیز بھی ہے کہ جب صدقہ کرے تو بجائے فخر اور گھمنڈ کے شرمندگی کی سی صورت سے خرچ کرے، جیساکہ کسی کی امانت کوئی شخص اس طرح واپس کرے کہ اس میں سے کم یا زیادہ رکھ بھی لے، مثلاً: کسی کے سو روپے امانت رکھے ہوں، اور امانت کی واپسی کے وقت اس میں سے پچاس ہی واپس کرے اور یہ کہہ کر واپس کرے کہ تم نے چوںکہ مجھے خرچ کی اجازت دے دی تھی اس لیے پچاس میں نے خرچ کرلیے یا اپنی کسی ضرورت کے لیے رکھ لیے۔ یہ کہتے وقت جیساکہ آدمی پر ایک حجاب، ایک شرم، ایک غیرت، ایک عاجزی، ایک ذلت ٹپکتی ہے اور اس کو یہ بات خود کو محسوس ہوتی ہے کہ میں نے اس کریم النفس آدمی کے مال میں تصرف کیا، اس کاکتنابڑا احسان ہے کہ اس نے باقی کامطالبہ نہیںکیا، یہی ہیئت بعینہٖ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے وقت ہونی چاہیے کہ اسی کی عطا کا کچھ حصہ اسی کو ایسی طرح واپس کیا جا رہا ہے کہ اس میں سے ہم نے کچھ کھا بھی لیا اور کچھ رکھ بھی لیا۔ اوریہ اس وجہ سے کہ صدقہ جو کسی فقیر کو دیا جا رہا ہے یاضرورت کے موقع پر خرچ کیا جارہا ہے تو وہ حقیقت میں اللہ تعالیٰ شا نہٗ کو ہی واپس کیا جارہا ہے، فقیر تو محض ایک ایلچی ہے جو گویا اس نے اپنا آدمی اپنی امانت واپس لینے کے لیے بھیجا ہے۔ ایسے مواقع میں آدمی ایلچی کی کیسی خوشامد کیا کرتا ہے کہ تو آقا سے، حاکم سے ذرا سفارش کر دیجیو، کہہ دیجیو کہ اس کے پاس سارا مطالبہ ادا کرنے کو اس وقت تھا، نہیں میری ضرورتو ںاور اَحوال پر نظر کرکے اتنے ہی کو قبول کرلیں وغیرہ وغیرہ۔ غرض جتنی چاپلوسی قاصدوں کی،اَہلکاروں کی ایسے وقت میں ہوتی ہے جب کہ پورا حق ادا نہ کیا جارہا ہو، اس سے زیادہ عملی صورت سے فقرا اور صدقہ کا مال لینے والوں کی ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ یہ اللہ کے ایلچی ہیں، مالک الملک کے قاصد ہیں، اس مالک الملک، قادرِمطلق اور بے نیاز کے بھیجے ہوئے ہیں جس نے سب کچھ عطا کیا اور وہ جب چاہے آن کی آن میں سب کچھ چھین کر تمہیں بھی ایسا ہی محتاج کر دے جیسا کہ تمہارے سامنے ہے۔ اور یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ مال سارا کاسارا اللہ تعالیٰ ہی کا ہے،اور اس کی راہ میں سارا خرچ کردینا مرغوب اور پسندیدہ ہے۔ اس نے اپنے لطف وکرم سے سب کے خرچ کرنے کا ایجاب ہم پر نہیں فرمایا۔ اس لیے کہ اگر وہ سب کچھ خرچ کرنا واجب فرما دیتا توہمیں اپنے طبعی بخل و کنجوسی سے بہت بار ہو جاتا۔
نمبر۷: ساتواں ادب یہ ہے کہ اللہ کے راہ میں صدقہ کرنے کے لیے، بالخصوص زکوٰۃ کے ادا کرنے میں جو اس کا ایک اہم حکم اور فریضہ ہے، بہتر سے بہتر مال خرچ کرے۔ اس لیے کہ حق تعالیٰ شانہٗ خود طیّب ہیں، ہر قسم کے عیب سے پاک ہیں، 
Flag Counter