Deobandi Books

فضائل صدقات اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

276 - 607
اورعُجب بہت ناپسند ہے ابتدا میں مسلمانوں کوشکست ہوئی جس کی طرف آیت ِبالا میںا شارہ ہے کہ تم کو اپنے مجمع کی کثرت پر گھمنڈپیدا ہوا، لیکن مجمع کی کثرت تمہارے کچھ بھی کام نہ آئی۔ حضرت عروہ ؒ  فرماتے ہیں کہ جب اللہ کے پاک رسولﷺ نے مکہ مکرمہ فتح کرلیا تو قبیلۂ ہوازن اور ثقیف کے لوگ چڑھائی کرکے آئے اور موضعِ حنین میںوہ لوگ جمع ہوگئے۔ حضرت حسن ؒ سے نقل کیا گیا کہ جب مکہ والے بھی فتح کے بعد مدینہ والوں کے ساتھ مجتمع ہوگئے تو وہ لوگ کہنے لگے کہ واللہ! اب ہم اکھٹے ہوکر حنین والوں سے مقابلہ کریںگے۔ حضورِ اقدسﷺ کو ا ن لوگوں کی یہ گھمنڈ کی بات گراں گزری اور ناپسند ہوئی۔ (دُرِّمنثور) غرض عُجب کی وجہ سے یہ پریشانی پیش آئی۔
علما نے لکھا ہے کہ نیکی جتنی بھی اپنی نگاہ میں کم سمجھی جائے گی اتنی ہی اللہ تعالیٰ کے یہاں بڑی سمجھی جائے گی۔ اورگناہ جتنابھی اپنی نگاہ میں بڑا سمجھا جائے گا اتنا ہی اللہ تعالیٰ کے یہاں ہلکااور کم سمجھاجائے گا۔ یعنی ہلکے سے گناہ کو بھی یہی سمجھے کہ میں نے بہت بڑی حماقت کی، ہرگز ہرگز نہ کرناچاہیے تھا۔ کسی گناہ کو بھی یہ نہ سمجھے کہ چلو اس میں کیا ہوگیا۔
بعض علما سے نقل کیا گیا کہ نیکی تین چیزوں سے کامل ہوتی ہے۔ ایک یہ کہ اس کو بہت کم سمجھے کہ کچھ بھی نہ کیا۔ دوسرے جب کرنے کا خیال آجائے تو اس کو کرنے میں جلدی کرے، مبادا یہ مبارک خیال، یعنی نیکی کرنے کا نکل جائے یاکسی وجہ سے نہ ہوسکے۔ تیسرے یہ کہ اس کو مخفی طور سے کرے۔
اور جو کچھ خر چ کیا ہے، اس کو حقیر سمجھنے کا طریقہ یہ ہے کہ یہ دیکھے کہ جو کچھ خرچ کیا ہے، اس کا موازنہ اس سے کرے جواپنے اوپر خرچ کیا جاچکا اور اپنے پاس باقی رہنے دیا۔ پھر سوچے کہ میں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میںکتناخرچ کیا اور اپنے لیے کتنا رکھا؟ مثلاً: اگر جو کچھ اس کے پاس موجود تھا اس میں سے ایک تہائی خرچ کر دیا تو گویا مالک الملک آقا اور محبوب کی رضا میں تو ایک تہائی ہوا اور محبت کے دعوے دار کے حصہ میں دوتہائی۔ اور اگر کوئی شخص اس کا عکس یا سارا بھی خرچ کر دے، جس کی مثال اس زمانہ میں تو ملنا بھی مشکل ہے، تب بھی یہ سوچنا چاہیے کہ آخر مال تو اللہ ہی کا تھا، اسی کی عطا فرمائی ہوئی چیز اپنے پاس تھی، جس میں اس نے اپنے لطف وکرم، احسان سے خرچ کی اور اپنی ضرورت میں کام لانے کی اجازت دے رکھی تھی۔ اگر کسی ایسے شخص کی امانت اپنے پاس ہو جس نے امانت رکھواتے وقت یہ بھی کہہ دیا ہو کہ اگر آپ کو کوئی ضرورت پیش آئے تواس کو اپنا ہی مال تصور کرکے خرچ کرلیں۔ پھرتم کسی وقت اس کی امانت کم و بیش واپس کر دو تو اس میں کون سا احسان تمہاراہوا جس کو تم یہ سمجھو کہ ہم نے بڑا کارنامہ کیا؟ اور پھرمزید یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ شا نہٗ کو اس کی عطا کی ہوئی چیز واپس کرنے میں، یعنی اس کے نام پر خرچ کرنے میں، اس کی طرف سے اجر و ثواب اور بدلہ کا ایسا ایسا وعدہ ہے کہ اس کے لحاظ سے تو یہ کہا بھی نہیںجاسکتا کہ ہم نے اس کی امانت واپس کر دی، بلکہ یوں کہا جائے گا کہ ایک شخص نے 
Flag Counter