Deobandi Books

فضائل صدقات اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

275 - 607
دخل ہوتا ہے اور یہ مرض یعنی حبِ جاہ کا، حبِ مال سے بھی زیادہ سخت ہے اورلوگوں پر حبِ مال سے بھی زیادہ مسلط ہے۔ اور صفتِ بخل قبر میں بچھو بن کر آدمی کو کاٹتی ہے اور صفتِ ریا و شہرت اژدہا بن کر ڈستی ہے۔ تو صفتِ بخل کو زائل کرکے صفتِ ریا کو تقویت دینے کی مثال ایسی ہے جیساکہ کوئی شخص بچھو کو مار کرسانپ کو کھلائے کہ اس میں بچھو تویقینا مرگیا اور اس کی مضرت جاتی رہی، لیکن سانپ قوی ہوگیا، اور مقصود دونوں کو مارنا ہے اور سانپ کا مارنا زیادہ ضروری ہے۔
نمبر۴: چوتھا ادب یہ ہے کہ اگر کوئی دینی مصلحت اظہار کی ہو، مثلاً: دوسروں کو ترغیب مقصود ہو یا دوسرے لوگ اس کے فعل کااتباع کرتے ہوں یا اور کوئی دینی مصلحت ہو تو اس وقت اظہار افضل ہوگا۔ ان دونوں نمبروں کا بیان پہلی فصل کی آیات میں نمبر (۹) پر مفصل گزر چکا ۔
نمبر ۵: پانچواں ادب یہ ہے کہ اپنے صدقہ کومَن واذیٰ سے برباد نہ کرے۔ مَن کے معنی احسان رکھنے کے ہیں۔ یعنی جس پر صدقہ کیا ہے اس پر اپنے صدقہ کا احسان جتائے۔ اور اذیٰ کے معنی تکلیف کے ہیں۔ یعنی اس کو کسی اور طرح کی اذیت اس گھمنڈ پر پہنچائے کہ یہ اپنا دستِ نگر ہے، محتاج ہے، اس کی ضرورت اپنے سے وابستہ ہے، یا میں نے زکوٰۃ دے کر اس پر احسان کیا ہے۔ یہ مضمون بھی پہلی فصل کی آیات میں نمبر(۸) پر تفصیل سے گزرچکا ہے۔
نمبر ۶: چھٹا ادب یہ ہے کہ اپنے صدقہ کو حقیر سمجھے۔ اس کو بڑی چیز سمجھنے سے عُجب پیدا ہونے کا اندیشہ ہے جو بڑی ہلاکت کی چیز ہے اور نیک اعمال کو برباد کرنے والی ہے۔ حق تعالیٰ شا نہٗ نے بھی قرآنِ پاک میں طعن کے طور پراس کا ذکر فرمایا ہے: چناں چہ ارشاد ہے: 
{وَیَوْمَ حُنَیْنٍ اِذْ  اَعْجَبَتْکُمْ کَثْرَتُکُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْکُمْ شَیْئًا} الآیۃ۔ (البراء ۃ :ع ۴) 
اورحنین کے دن (بھی تم کو غلبہ دیا تھا) جب کہ (یہ قصہ پیش آیا تھا کہ) تم کو اپنے مجمع کی کثرت سے گھمنڈ پیداہوگیاتھا، پھر وہ کثرت تمہارے کچھ کام نہ آئی اور (کفار کے تیر برسانے سے تمہیں اس قدر پریشانی ہوئی کہ) زمین اپنی وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی، پھرتم (میدانِ جنگ سے) منہ پھیر کر بھاگ گئے۔ اس کے بعد اللہنے اپنے رسول اور مؤمنین پرتسلی نازل فرمائی اور ایسے لشکر (فرشتوں کے) تمہاری مدد کے لیے بھیجے جن کو تم نے نہیں دیکھا۔
اس کا قصہ کُتبِ احادیث میں مشہور ہے۔کثرت سے روایات اس قصہ کے بارہ میں وارد ہوئی ہیں۔ جن کا خلاصہ یہ ہے کہ رمضان المبارک ۸ھ میں جب کہ حضورِ اقدس ﷺ  نے مکہ مکرمہ کو فتح فرما لیا توقبیلۂ ہوازن اور ثقیف پر حملہ کے لیے رمضان ہی میں تشریف لے گئے۔ چوںکہ مسلمانوںکی جمعیّت اس وقت پہلے غزوات کے لحاظ سے بہت زیادہ ہوگئی تھی تو ان میں اپنی کثرت پر عُجب پیداہوا کہ ہم اتنے زیادہ ہیں کہ مغلوب نہیں ہوسکتے۔ اسی بنا پر کہ حق تعالیٰ شا نہٗ کو گھمنڈ 
Flag Counter