Deobandi Books

فضائل صدقات اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

274 - 607
کر تھے اور ماہِ رمضان میں تو آپ کی بخشش اور جود ایسی تیزی سے چلتی تھی جیسا کہ تیز ہوا۔ نیز اس مہینہ میں لیلتہ القدرہے جو ہزار راتوں سے افضل ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ کی نعمتیں بھی اس مہینہ میں اپنے بندوں پر روز اَفزوں ہوتی ہیں۔ اسی طرح ذوالحجہ کا مہینہ بھی بڑی فضیلت والے مہینوں میں ہے۔اس میں حج ہوتا ہے، اس میں ایامِ معلومات ہیں یعنی عشرئہ ذو الحجہ، اور ایام معدودات ہیںیعنی ایام تشریق، اور ان دونوں میں اللہ تعالیٰ کی یاد کی ترغیب قرآنِ پاک میں آتی ہے۔ پس اگر کوئی رمضان کو متعین کرے تو اس کا عشرئہ آخر مناسب ہے اور ذی الحجہ کو مقرر کرے تواس کا عشرۂ اول بہترہے۔ بندۂ ناکارہ زکریاکا مشورہ یہ ہے کہ ہر شخص کو اپنی زکوٰۃ کا تقریبی اندازہ توہوتا ہی ہے۔ اس لیے سال کے شروع ہی سے ضرورت کے مواقع پر اس انداز کی رعایت رکھتے ہوئے تھوڑا تھوڑا دیتا رہے، اور جب سال وجوب کا ختم ہو اس وقت اپنے مال کا اور اپنی زکوٰۃ کا پورا حساب لگالے۔ اگر کچھ کمی رہ گئی ہو توا س وقت پوری کر دے اوراگر کچھ زیادہ ادا ہوگیا ہو تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے کہ اسی کی توفیق تھی کہ واجب سے زیادہ ادا ہوگیا۔ اس میں تین مصلحتیں ہیں۔ 
اول تویہ کہ پوری رقم اگر مقدار میں زیادہ ہوئی توبڑی رقم کا بہ یک وقت خرچ کرنا اکثر طبیعت پر بار ہو جاتا ہے اور زکوٰۃ کے ادا کرنے میں طیبِ نفس سے خرچ کرنے کو بہت زیا دہ اہمیت ہے۔ دوسری مصلحت یہ ہے کہ ضرورت کے مواقع ہر وقت میسر نہیں ہوتے۔ اس طرح ادا کرنے میں ضرورت کے مواقع پر خرچ ہوتا رہے گا۔ اور اگر سال کے ختم پر حساب کرکے اس خیال سے اس کو علیحدہ رکھے گا کہ وقتاً فوقتاً خرچ کرتا رہوں گا، تواس میں ایک تو ہر دن تاخیر ہوتی رہے گی، دوسرے اس کا اطمینان نہیں کہ ادائیگی سے پہلے کوئی حادثہ جانی یا مالی پیش نہ آجائے اور زکوٰۃ واجب ہو جانے کے بعد ادا نہ ہونے میں سب کے نزدیک گناہ ہے۔ تیسری مصلحت یہ ہے کہ وقتاً فوقتاً ادا کرتے رہنے میں اگر آدمی کے بخل نے زیادہ زور نہ کیا تو امید یہ ہے کہ مقدارِ واجب سے کچھ زیادہ اکثر ادا ہو جایا کرے گا جو مرغوب چیز ہے۔ اور بہ یک وقت حساب لگا کر اس پر اضافہ کرنا بہت سے لوگوں کو دشوار ہوگا۔
یہاںایک بات اہتمام سے ذہن میں رکھنا چاہیے کہ زکوٰۃ کا مدار قمری سال پر ہے، شمسی سال پر نہیں ہے۔ بعض لوگ انگریزی مہینہ سے زکوٰۃ کا حساب رکھتے ہیں۔ اس میں دس یوم کی تاخیر تو ہر سال ہو ہی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ چھتیس سال میں ایک سال کی زکوٰۃ کم ہو جائے گی جواپنے ذمہ پر رہ گئی۔
نمبر ۳: تیسرا ادب زکوٰۃ کا مخفی طریقہ سے ادا کرنا ہے۔ اس لیے کہ اس میںا ظہارِ شہرت سے امن ہے اور لینے والے کی پردہ پوشی ہے، اس کو ذلت سے بچانا ہے۔ اور افضل یہی ہے کہ اگر کوئی مجبوری اظہار کی نہ ہو تو مخفی طورپر ادا کرے۔ اس لیے کہ صدقہ کی مصلحت بخل کی گندگی کو دور کرناہے اور مال کی محبت کو زائل کرنا ہے۔ اور زیادہ شہرت میں حبِ جاہ کو 
Flag Counter