Deobandi Books

فضائل صدقات اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

271 - 607
تین وجہیں ہیں ۔
الف :اس وجہ سے کہ زبان سے کلمہ کا اقرار کرلینا وہ اللہ تعالیٰ کو تنے تنہا معبود ماننے کا اقرار ہے۔ یعنی یہ کہ اس کے ساتھ کوئی دوسری چیز شریک نہیں ہے۔ اور اس کی تکمیل اور تمامی جب ہی ہوسکتی ہے جب کہ اس ایک پاک ذات کے سوا محبت کے دعوے دار کے دل میں اختیاری طور پر کسی دوسری چیز کی گنجایش نہ رہے۔ اس لیے کہ محبت شرکت کی ہرگز متحمل نہیں ہے۔ اور محض زبانی دعویٔ محبت بے کار ہے۔ محبت کا امتحان جب ہی ہوسکتا ہے جب دوسر ی محبوب چیزوں سے مقابلہ پڑ جائے۔ اور مال ہر شخص کو بالطبع محبوب ہوتا ہے۔ اس لیے اللہ سے محبت اور اس کی تنہا معبودیت کے اقرار میں امتحان کی کسوٹی کے طور پر مال کا خرچ کرنا فرض کیاگیا ہے، جس سے لوگوں کی حق تعالیٰ شا نہٗ کے ساتھ محبت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اسی لیے حق تعالیٰ شا نہٗ کا ارشاد ہے : 
{ اِنَّ اللّٰہَ اشْتَریٰ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ } (التوبۃ : ع ۱۴) 
بلاشبہ حق تعالیٰ شا نہٗ نے مسلمانوں سے ان کی جانوں کو ا ور مالوں کو اس بات کے بدلہ میں خرید لیا ہے کہ ان کو جنت ملے گی۔ 
او ر جانوں کا خرید لینا جہاد کے ذریعہ سے ہے اور مالوں کا خرچ کرنا جان کے خرچ کرنے سے ہلکا ہے۔ اور جب مال کے خرچ کرنے کا یہ مفہوم ہوا کہ وہ محبت کے امتحان کی کسوٹی ہے تو آدمی اس امتحان میں تین قسم کے ہوئے۔
پہلی قسم ان لوگوں کی ہے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی یکتائی کا سچا اقرار کیا کہ اس کی محبت میں ذرا سی بھی شرکت کسی چیز کی نہیں آنے دی اور اپنے عہد کو پورا پورا ادا کر دیا کہ اپنے مالوں کو سب کو اس کے نام پر قربان کر دیا، نہ اپنے لیے کوئی دینار رکھا نہ دِرَم، وہاںزکوٰۃ کے واجب ہونے کا سوال ہی نہیں آتا۔ اسی وجہ سے بعض بزرگوں سے منقول ہے کہ ان سے کسی نے دریافت کیا کہ دو سو دِرَم میںکتنی مقدار واجب ہے ؟ تو انھوں نے فرمایا کہ عام لوگوں پرشریعتِ مطہرہ کے ضابطہ کے موافق پانچ دِرَم ہیں، لیکن ہم لوگوں کو سب کا خرچ کر دینا ضروری ہے۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنا سارا مال خدمت میں پیش کر دیا اور محبت کے دعویٰ کو ایسا پورا کیا کہ محبوب کے سوا کچھ بھی نہ چھوڑا۔
دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو درمیانی درجہ کے ہیں کہ وہ بقدرِ حاجت و ضرورت باقی رکھتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نعمتوں اور لذتوں میں تو مشغول نہیں ہوتے۔ البتہ بقدرِ ضرورت ذخیرہ رکھتے ہیں اور ضرورت سے زائد کو صَرف کر دیتے ہیں۔ یہ حضرات بھی خرچ کرنے میںمقدارِ زکوٰۃ پر اِکتفا نہیں کرتے، بلکہ فاضل مال جو کچھ ہوتا ہے وہ سب خرچ کر دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے بعض تابعین جیسا کہ امام نخعی، شعبی وغیرہ ؒ حضرات اس طرف گئے ہیں کہ مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی 
Flag Counter