Deobandi Books

فضائل صدقات اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

270 - 607
ایسی ہی ردّی کھجوریں پائے گا۔ (دُرِّمنثور) حضرت عائشہؓ حضورِ اقدسﷺ کا ارشاد نقل کرتی ہیں کہ مساکین کو اس مال کو نہ کھلائوں جس کو تم خود نہ کھا سکو۔ (کنز العمال) ایک اور حدیث میں ہے کہ گوشت میں بُو ہوگئی تھی۔ حضرت عائشہؓ نے ارادہ فرمایا کہ کسی کو اللہ کے واسطے دے دیں۔ حضورﷺ نے فرمایا: کیا ایسی چیز کا صدقہ کرتی ہو جس کو خود نہیں کھاتیں۔ (جمع الفوائد) مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ کے نام پر جب دیا جا رہا ہے تواچھا مال جہاں تک ممکن ہو دینا چاہیے، لیکن یہ مطلب نہیں ہے کہ اچھا دیا نہ جائے اور خراب اس وجہ سے نہ دے، بس حذف ہی ہو جائے۔ اگر عمدہ کی توفیق نہ ہو تو نہ دینے سے گھٹیا دینا بہتر ہے۔ زکوٰۃ میں ردّی مال دینا بھی زکوٰۃ نہ دینے ہی کی ایک قسم ہے۔ حضورِ اقدسﷺ کا ارشاد فرمایا ہوا زکوٰۃ ادا کرنے کا ضابطہ چوتھی فصل کی احادیث میں نمبر (۶) پر گزر چکا ہے کہ نہ تو اللہ  بہترین مال کا مطالبہ فرماتے ہیں نہ گھٹیا مال کی اجازت دیتے ہیں، بلکہ متوسط مال کامطالبہ ہے۔ یہی اصل ضابطہ زکوٰۃ کے اداکرنے کا ہے۔
حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے جو اَحکامات اپنے ماتحتوں کو زکوٰۃ وصول کرنے کے تحریر فرمائے، ان میںزکوٰۃ کی تفصیل تحریرفرمائی اور تمہید میں تحریر فرمایا کہ جو اس تفصیل کے ساتھ زکوٰۃ وصول کرے اس کو دی جائے، اور جو اس سے زیادہ لینا چاہے اس کو نہ دی جائے۔ حضورِ اقدسﷺ  نے جب حضرت معاذؓکو یمن کا حاکم بناکر بھیجا تو نماز کے حکم کے بعد زکوٰۃ ادا کرنے کے حکم کی تلقین فرمائی، اور یہ ارشاد فرمایا کہ جب وہ زکوٰۃ ادا کریں تو ان کے بہترین مال کو لینے کی کوشش نہ کرنا۔ مظلوم کی بددعا سے بچنا کہ مظلوم کی بددعا کے قبول ہونے میں کوئی آڑ نہیں ہوتی۔
امام زہری ؒ فرماتے ہیں کہ جب حکومت کا آدمی زکوٰۃ لینے آئے تو بکریوں کے تین حصے کر دیے جائیں۔ عمدہ عمدہ ایک جگہ اور ردّی ردّی ایک جگہ۔ تیسرا حصہ جو درمیانی ہے ان میں سے لے لے۔ (ابوداود) یہی اصل ضابطہ ہے زکوٰۃ لینے والے کے حق میں، لیکن دینے والا اگر اپنی خوشی سے اچھے سے اچھامال دے تو اس میں مضائقہ نہیں ہے، جیساکہ اسی حدیث نمبر (۶) کے ذیل میں صحابہ?  کے بعض واقعات اور حضورﷺ کا پاک ارشاد گزر چکا کہ تم اگر اپنی خوشی سے عمدہ مال ضابطہ سے زائد دینا چاہو تو اللہ تعالیٰ تم کو اس کا ا جر دے گا۔ اس لیے دینے والے کو یہ سمجھ کر کہ اپنے کام آنے والا صرف یہی مال ہے جو دیا جارہا ہے، بہتر سے بہتر مال چھانٹ کر دینا چاہیے۔
امام غزالی ؒ فرماتے ہیں کہ جو شخص زکوٰۃ کو آخرت کے واسطے اداکرناچاہے اس کے لیے کچھ آداب ہیں، کچھ قواعد ہیں، ان کی رعایت کرنا چاہیے۔ امام غزالی ؒ نے اس مضمون کو بڑی تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ بندہ اس کو نہایت اختصار سے اور کہیں کہیں معمولی توضیح سے ذکر کرتا ہے۔ یہ اس کا ترجمہ نہیں ہے۔ امام غزالی  ؒ نے آٹھ ادب ذکر فرمائے ہیں۔
 نمبر۱ : سب سے پہلی چیز تو یہ سمجھنے کی ہے کہ آخر زکوٰۃ کیوں واجب ہوئی؟ کیوں اس کو اسلام کا رکن قرار دیا گیا؟ اس کی 
Flag Counter