Deobandi Books

فضائل صدقات اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

260 - 607
دوسری آیت میں نمبر(۳۱) پرگزرا کہ تمہارے مال و متاع، آل و اولاد تمہارے لیے امتحان کی چیزیںہیں۔ اللہ کے راستہ میں خرچ کرتے رہو یہ تمہارے لیے بہتر ہوگا۔ حضورﷺ کا پاک ارشاد اسی فصل کی احادیث میں نمبر( ۱ ) پر گزر چکا کہ اگر میرے پاس اُحد کے پہاڑ کے برابر سونا ہو تو میر ا دل نہیں چاہتا کہ اس میں سے کچھ بھی اپنے پاس رکھوں بجز اس کے کہ قرض کی ادائیگی کے واسطے رکھا ہو۔ نمبر(۳ ) پر حضورﷺ کا ارشاد گزرا کہ جو چیز ضرورت سے زائد ہو اس کو اللہ کے راستہ میں خرچ کر دینا تمہارے لیے بہتر ہے، بچا کر رکھنا براہے۔ نمبر(۱۲) پر حضورﷺ کا پاک ارشاد گزرا کہ گن گن کر خرچ نہ کر، جتنابھی ہوسکے خرچ کر ڈال۔ نمبر (۲۰) پر یہ واقعہ گزر چکا کہ ایک بکری ذبح کی گئی اور بجز ایک شانہ کے ٹکڑے کے ساری تقسیم کر دی گئی۔ حضور ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کتنی تقیسم ہوگئی تو عرض کیا گیاکہ ایک شانہ باقی رہ گیا اورباقی سب خرچ ہوچکی۔ حضورﷺ نے فرمایا وہ ساری باقی ہے اس شانہ کے علاوہ۔ اس قسم کے بہت سے ارشادات فصلِ اول میںگزر چکے ہیں۔ اس لیے اس سے قطعِ نظر کہ واجب کیا ہے، مندوب و مستحب کیا ہے؟ اپنے کام آنے والا صرف وہی مال ہے جو اپنی زندگی میں آدمی آگے بھیج دے۔ اگراس محنت و مشقت سے کمائی ہوئی چیز کو اپنی ضرورت کے وقت کام آنے کے لیے کہیں محفوظ کرنا ہے تو وہ صرف اللہ کے راستہ میں خرچ کرنا ہے،  جس کا نفع آخرت میں تو ہے ہی دنیا میں بھی زیادہ سے زیادہ ہے کہ بلائوں کے دور ہونے میں، اَمراض سے صحت ہونے میں صدقہ کو زیادہ سے زیادہ دخل ہے۔ برے خاتمہ سے اس کی وجہ سے حفاظت ہوتی ہے۔ حضورﷺ کا مشہور ارشاد ہے کہ قابلِ رشک دو آدمی ہیں۔ ایک وہ جس کوا للہ نے قرآنِ پاک عطا فرمایا ہو کہ رات دن اس کی تلاوت میں، اس پرعمل کرنے میں منہمک رہے۔ دوسراوہ شخص جس کو اللہ  نے بہت مال عطا کیاہو اور وہ ہر وقت اس کو اللہ کے راستہ میں لٹانے پر تلا ہوا ہو۔ (مجمع الزوائد) 
حضورﷺ کا پاک ارشاد دوسری فصل کے نمبر (۳ ) پر گزر چکا کہ سرمایہ دار بڑے خسارہ میں ہیں بجز اس شخص کے جو دونوں ہاتھوں سے ادھر ادھر، دائیں بائیں، آگے پیچھے اللہ کے راستہ میں خرچ کرتا رہے۔ اور نمبر(۷) پر حضورﷺکاپاک ارشاد گزرچکا کہ وہ حقیقت میں مؤمن ہی نہیں جو خود پیٹ بھر کرکھالے اور اس کا پڑوسی بھوکا پڑا رہے۔ غرض اس رسالہ میں پہلی فصلوں میں تفصیل سے یہ مضمون گزر چکا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلمان کی ہرگز یہ شان نہیںہے کہ مال کو جمع کرکے رکھے۔ اس کی صحیح مثال بالکل پاخانہ کی سی ہے کہ وہ ضروری تو اتناکہ ایک دو دن نہ ہو تو حکیم اور ڈاکٹر دوائیں وغیرہ سب ہی کچھ آدمی کرنے پر مجبور ہے، لیکن اگر مناسب مقدار سے زائد آنے لگے تو اس کو بند کرنے کے واسطے بھی حکیم اور ڈاکٹر کی ضرورت ہے۔ اور اگر کوئی شخص پاخانہ کو اس وجہ سے کہ وہ اتنی اہم اور ضروری چیز ہے اپنے گھر میں محفوظ رکھے کہ بڑی مشقت سے حاصل ہوئی ہے، تو مکان بھی سڑ جائے گا اَمراض بھی بکثرت پیدا 
Flag Counter