Deobandi Books

فضائل صدقات اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

244 - 607
مہینوںاور برسوں بھی مرنے والے کاخیال نہیں آئے گا۔ اس سب سے قطعِ نظر حدیث ِبالا کے سلسلہ میں ایک اور اہم اور کلی بات بھی ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ دین کے متعلق ایک مہمل اور بے ہودہ لفظ ہماری زبانوں پر ہوتا ہے: اجی! ہم دنیا داروں سے فرائض ہی ادا ہوجائیں تو غنیمت ہے، نوافل تو بڑے لوگوں کاکام ہے۔ یہ شیطانی دھوکہ ہے۔ نوافل اور تطوُّعات فرائض ہی کی تکمیل کے واسطے ہوتے ہیں۔ کون شخص یہ یقین کرسکتا ہے کہ میں نے اللہ کے کسی فرض کو بھی پورا کا پورا کر دیا؟ اور جب اس میں کوتاہی رہتی ہی ہے تواس کے پورا کرنے کے لیے نوافل ہوتے ہیں۔
حضورِ اقدسﷺ کا ارشاد ہے کہ آدمی نمازسے ایسی حالت میں فارغ ہوتا ہے کہ اس کے لیے اس نماز کا دسواں حصہ لکھاجاتا ہے، نواں حصہ، آٹھواں حصہ، ساتواں حصہ، چھٹا، پانچواں، چوتھا، تہائی، آدھا حصہ لکھا جاتا ہے۔ (ابوداود) یہ مثال کے طور پر حضورﷺ نے ارشاد فرمایا۔ ہم لوگ جیسی نمازیں پڑھتے ہیں اس کا تو ہزارواں، بلکہ لاکھواں حصہ بھی لکھ لیا جائے تو محض اس کا لطف و کرم ہے۔ ورنہ وہ توا پنی بداعمالیوں اور بے اخلاصی کی وجہ سے ایسی ہوتی ہیں جیسا کہ دوسری احادیث میں ہے کہ بعض نمازیں پرانے کپڑے کی طرح سے لپیٹ کر منہ پر مار دی جائیں گی کہ ان میں قبول کا کوئی درجہ بھی نہ ہوگا۔ ایسے احوال میں نہیں کہا جاسکتا کہ ہمارے فرائض کا کتنا حصہ لکھا گیا۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ قیامت میں سب سے پہلے نماز کا محاسبہ ہوگا۔ اللہ  کاپاک ارشاد فرشتوں کوہوگا کہ میرے بندے کی نماز کو دیکھو کہ ناقص ہے یا پوری۔ اگر پوری ہوتی ہے تو وہ پوری لکھ لی جاتی ہے اور اگر ناقص ہوتی ہے تو جتنا نقصان ہوتا ہے وہ درج ہو جاتا ہے۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ دیکھو اس کے پاس کچھ نوافل ہیں یا نہیں؟ اگر نوافل اس کے پاس ہوتے ہیں توان سے فرائض کی تکمیل کر دی جاتی ہے۔ اس کے بعد پھر اس طرح زکوٰۃ کا حساب کتاب شروع ہوتا ہے۔ یعنی اول فرائض کا حساب ہوتا ہے، پھر نوافل سے اس کی تکمیل ہوتی ہے، اس کے بعد پھر اسی طرح بقیہ اعمال کا حساب کتاب ہوتا ہے۔ (ابوداود)
ایسی صورت میں اس گھمنڈ میں کسی شخص کوہرگز نہ رہنا چاہیے کہ میں زکوٰۃ حساب کے موافق دیتا رہتا ہوں۔ نہ معلوم کتنی کوتاہیاں اس میں ہوجاتی ہوں گی۔ ان کی تلافی کے لیے زیادہ سے زیادہ مقدار صدقاتِ نافلہ کا ذخیرہ ہونا چاہیے۔ عدالت میں جب مقدمہ کے لیے آدمی جاتا ہے، ہمیشہ خرچ سے زیادہ روپیہ جیب میں ڈال کر جاتا ہے کہ نہ معلوم کیا خرچ پیش آئے۔ وہ عدالت توسب عدالتوںسے اونچی ہے، جہاںنہ جھوٹ چلتا ہے نہ زبان زوری نہ سفارش۔ ہاں اللہ کی رحمت ہر چیز سے بالاتر ہے۔ وہ صاحبِ حق ہے، بالکل ہی معاف کر دے تو کسی کا کیا اِجارہ ہے؟ لیکن یہ ضابطہ کی چیز نہیں ہے۔ اور مراحمِ خسر وانہ کی امیدپر جرم نہیںکیے جاتے۔ اس لیے فرض کی مقدار کو بہت اہتمام سے اس کے شرائط اور آداب کی رعایت 
Flag Counter