Deobandi Books

فضائل صدقات اردو - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

243 - 607
المصابیح، زیلعی) حضورِ اقدس ﷺ  کامشہور ارشاد ہے کہ جو شخص ایک بالشت زمین کسی کی ظلم سے لے گا، قیامت کے دن ساتویں زمینوں کا وہ حصہ جو اس ایک بالشت کے مقابل ہے، طوق بناکر اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔ (مشکاۃ المصابیح)
وفدِ ہوازِن کا قصہ نہایت مشہور ہے کہ جب وہ شکست کھانے کے بعد مسلمان ہو کر حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور یہ درخواست کی غنیمت میں جو قیدی اور مال ان کا لیا گیا ہے وہ ان کو واپس مل جائے، تو حضورﷺ نے بعض مصالح کی بنا پر یہ وعدہ فرمالیا کہ دونوںچیزیں تو واپس نہیں ہوسکتیں، ان میں سے ایک واپس ہوسکتی ہے۔ انھوںنے قیدیوں کے واپس مل جانے کی درخواست کی، تو حضورﷺ نے سب مسلمانوں سے جن کا ان میں حق تھا یہ اعلان فرمایا کہ میں نے ان کے قیدی واپس کرنے کا وعدہ کرلیا ہے۔ تم میں سے جو شخص طیبِ خاطر سے اپنا حصہ مفت دے وہ دے دے اور جو اس کو پسند نہ کرے ہم اس کا بدل اس کو دے دیں گے۔ بھلا حضورﷺ کے اِیما کے بعد صحابہ c میں کون انکار کرنے والا تھا۔ مجمع نے عرض کیا: ہم طیبِ خاطر سے پیش کرتے ہیں۔ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مجمع کے درمیان میں یہ صحیح طور پر پتہ نہیں چل سکتا کہ کس کی خوشی سے اجازت ہے کسی کی نہیں، اس لیے تمہارے چودھری تم سے علیحدہ علیحدہ بات کرکے تمہاری رضاکی مجھے اطلاع کر دیں۔ (بخاری)
دوسرے کے مال میں احتیاط کا یہ اُسوہ حضورﷺ کا ہے اور اس مضمون کی تائید میں احادیث کا بڑا ذخیر ہ ہے کہ جبر واِکراہ سے بلا رضا مندی کسی دوسرے کا مال لینا ہرگز جائز نہیں ہے۔ علمائے حق نے اس میں اتنی احتیاط برتی ہے کہ جو مجمع کی شرم میں کسی کارِخیر میں چندہ دیا جائے اس کو بھی پسند نہیں کیا۔ اس لیے ایک جانب تواس میں اِفراط سے بچنا ضروری ہے کہ بہ جبر و اِکراہ کسی دوسرے کا مال نہ لیا جائے۔ کسی وقتی تحریک سے مرعوب ہو کر ہرگز قول و فعل سے، تحریر و تقریر سے، جمہور اَسلاف کا خلاف نہ کرنا چاہیے۔ غریب پروری کا جذبہ بہت مبارک ہے، مگر اس میں حدود سے تجاوز ہرگز نہ کرنا چاہیے۔ نبی کریم ﷺ  کا پاک ارشاد ہے کہ بدترین لوگوں میں سے ہے وہ شخص جو دوسرے کی دنیا کی خاطر اپنی آخرت کو نقصان پہنچائے۔ (مشکاۃ المصابیح) اس لیے اس میںایک جانب اِفراط سے بچنا ضروری ہے اور دوسری جانب اس میں تفریط سے بچنا بھی اہم اور نہایت ضروری ہے۔ یہ صحیح ہے کہ مال میں زکوٰۃ ہی واجب ہے، لیکن محض واجب کی ادائیگی پر کفایت کرنا ہرگز مناسب نہیں۔
ا ب تک جو مضامین اورروایات رسالہ میں گزر چکی ہیں، وہ سب کی سب ببانگِ دُہل اس کا اعلان کررہی ہیں کہ اپنے کام آنے والا صرف وہی مال ہے جو اپنی زندگی میں دے دیاگیا اور اللہ کے یہاں جمع کر دیا گیا۔ بعد میں نہ کوئی ماں باپ یاد رکھتا ہے، نہ بیوی یا اولاد پوچھتی ہے۔ سب چند روز کے فرضی آنسو مفت کے بہاکر اپنے اپنے مشغلہ میں لگ جائیں گے۔ کسی کو 
Flag Counter